اسلام گل آفریدی
سید انور ٹرک ڈرائیور ہے اورکراچی بندرگاہ سے تجارتی سامان لیکر چار دن میں ضلع خیبر کے علاقے اکاخیل پہنچا ہے جہا ں ٹرانسپورٹرز کیلئے قائم ٹرمینل میں وہ اپنے باری کا انتظارکررہاہے تاہم اُن کا منزل افغان سرحدی گزرگاہ طورخم ہے جو کہ یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجود بھی گیا ر ہ دن میں وہ نہیں پہنچ سکاہے۔اُنہوں نے بتایا کہ پچھلے ایک ماہ سے حکومتی سرپرستی میں بعض ٹرانسپورٹ یونین نے باڑہ بازار کے قریب افغانستان کو تجارتی سامان لے جانے والے گاڑیوں کے لئے ایک ٹرمینل قائم کیاہے جہاں پر ہر ایک گاڑی کو روکا جاتا ہے اور طویل انتظار کے بعد اُن کوجانے کی اجازت مل جاتا ہے۔
اُن کے بقول گاڑیوں کے ڈرائیورز اور مال مالکان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے کیونکہ یونین والے ہرایک گاڑی سے ایک ہزار روپے کلیئرنس فیس لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جس کے زمین میں گاڑی کھڑی ہوتو ایک رات کے ایک سوپچاس سے دوسوروپے اورگاڑی کے وزن کے نام پر تین سوروپے وصول کیا جاتا ہے۔
کرونا وباء کی وجہ سے پاک افغان سرحد کو تین ماہ کے لئے لوگوں کے آمد ورفت اور ہرقسم کے تجارتی سرگرمیوں کے لئے بندرہنے کے بعد ایک ماہ قبل حکومت کیجانب سے سرحدتو دوبار ہ کھول دیا گیا لیکن گاڑیوں کو جمرود اور لنڈی کوتل میں پاک افغان شاہراہ پر کھڑا کرنے کے بجائے باڑہ بازار کے قریب فرنٹیئر روڈ پر نئے مقام پر کلیئرنس کیلئے اپنے باری کا انتظار کرنا ہوگا لیکن یہ پورا عمل انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ہے۔
افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے اسلام آباد نے طور خم سرحدی گزرگا ہ کو شب وروز کھلارکھنے کے اعلان پر عمل درآمد شروع ہواہے تاہم تاجروں کو مزید بہتر سہولیات دینے کے لئے افغان سرحد کے قریب بڑے ٹرمینل کے تعمیر پر بھی کا م جاری ہے جس کے وجہ سے کم تعداد میں گاڑیوں کو طور خم آنے کی اجازت دیا جاتا ہے۔اسطرح گاڑیاں لنڈی کوتل اور جمرود میں سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر ہرایک اپنے باری کا انتظارکرتا ہے لیکن اپنے باری کوآگے کرنے کے لئے مقامی پولیس کو رشوت دینے اور زیادہ رش کے وجہ سے مقامی آبادی کے شکایت میں اضافہ ہوا ہے۔
دوست محمد کا ٹریلر بھی باڑہ میں قائم ٹرمینل میں پچھلے بارہ دنوں سے اپنے باری کے لئے انتظار میں کھڑا ہے لیکن اُن کو اُمید ہے کہ آج یا کل وہ یہاں سے کلیئرنس کے بعد طور خم کے لئے نکل جائینگے۔ اُن کے بقول وہ اپنے باری کے بارے یونین کے لوگوں سے نہیں پوچھ سکتے کیونکہ اُن کو ڈر ہے کہ کہی وہ اس سوال پر مار نہ کھائے۔اُنہوں نے کہا کہ چکن کے گوشت کنٹینر میں لدھا ہوا ہے جس کے چوبیس گھٹنے اے سی کی ضرورت ہوتا ہے اور کمپنی کے جانب سے ہرروز جنریٹر میں تیل بھردیاجاتا ہے۔
ہم ٹرمینل کے مرکزی دفتر میں ذمہ دران کے موقف جانے کے لئے گئے لیکن کوئی رہنماء موجود نہیں تھا۔ ٹرمینل میں لگ بھگ تین ہزار چھوٹے بڑے گاڑیاں کھڑے ہیں لیکن یہاں پر گاڑیوں کے ڈرائیور اور مالکان کھل کراپنے مسائل پر بات کرنے سے کُتراتے ہیں اور خوف محسوس کررہے ہیں۔
ہم جہاں بھی گئے تو وہاں پر یونین کے کئی لوگ ہمارے پیچھا کرتے رہے تاہم بعض افراد نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایا کہ یہا ں پر یونین کے ورکرز گاڑیوں کے ڈائیور زکے ساتھ انتہائی نامناسب رویہ اختیار کرتے ہیں اور کئی بار تشدد کے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں تاہم حکومتی سطح پر اس کے روک تھام کے لئے اب تک کچھ نہیں ہواہے۔اُنہوں نے الزام لگایا کہ مذکورہ واقعات یونین کے لوگ بیس سے تیس ہزار روپے رشوت لیکر پسند کی گاڑی کے باری کو آگے کیا جاتاہے۔ گاڑی کے وزن کے نام پر تین سوروپے لیاجاتا ہے تاہم ڈرائیوروں نے بتایا کہ گاڑی کا وزن نہیں کیاجاتا البتہ پیسے یونین والے وصول کرلیتے ہیں۔
ریسکیو 1122کے مطابق 22جون کو باڑہ ٹرمینل میں پر تشدد واقع سامنے آیا جس میں دو ڈرائیور شدید زخمی ہوئے تھے جن کو طبی مدد کے لئے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ ادارے کے مطابق دوسرا واقعہ 6جولائی شام کو پیش آیا جس میں سادہ خان نامی افغان ڈرائیور ہلاک جبکہ دوسرا ایک ڈرائیور شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیاتھا۔
سیکورٹی کے انتظامات اور ایک ڈرائیور کے ہلاکت کے بارے میں ضلع خیبرکے پولیس آفیسر ڈاکٹر محمد اقبال نے بتایا کہ اس واقعے کا باقاعدہ ایف آئی آر چند افغانیوں کے خلاف درج کیا گیا ہے تاہم ا ب ملزمان کے گرفتاری کے لئے کوششیں جاری ہے۔
باڑہ میں قائم ٹرمینل کے حوالے سے ٹرانسپورٹ یونین کے سربراہ حاجی شاکر آفریدی نے بتایاکہ طورخم میں ٹرمینل پر تعمیراتی کام جاری ہے جس کے وجہ سے افغان جانے والے تمام مال بردار گاڑیاں تحصیل جمرد کے علاقے تخت بیگ میں پاک افغان شاہر اہ پر اپنے باری کے لئے قطاروں میں کھڑے ہوکرکا انتظار کرتے تھے لیکن وہاں پر سڑکوں کے بندش اور رشوت کے حصول کے شکایت میں اضافے کی وجہ سے ضلعی حکومت کے مشاورت سے باڑہ آکاخیل میں ٹرک ٹرمینل قائم کیا گیا جہاں پر موجود ہ وقت میں افغانستان جانے والے تین ہزار سے زیادہ گاڑیاں کھڑے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ طور خم میں حکام اور یونین کا آپس میں رابطہ ہوتا ہے اور جتنے گاڑیاں سرحد پار چلے جاتے ہیں تو یہاں سے اندارج کے مطابق دو سو تک گاڑیاں بھیج دیئے جاتے ہیں۔
باڑہ میں قائم ٹرمینل کے خلاف لنڈی کوتل میں پچھلے کئی ہفتوں سے ٹرانسپورٹ یونین اور گاڑیوں کے مالکان کا احتجاجی دھرنا جاری ہے جن کو سینٹر تاج محمد کا حمایت بھی حاصل ہے جبکہ اس سلسلے میں ضلع خیبرکے پولیس آفیسر ڈاکٹر محمد اقبال کے ساتھ مختلف سطح پر ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔
حاجی شاکر آفریدی نے یونین کے اہلکار وں کیجانب سے رشوت کے حصول کے الزمات مسترد کرتے ہوئے کہاکہ اگر کسی گاڑی سے ایک ہزار سے زیادہ روپے وصول کیے گئے تو پوری ثبوت کے ساتھ آئے تو ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرینگے تاہم اُن کے بقول سیمنٹ اور دیگر مافیا اپنے گاڑیاں جلد طورخم تک پہنچانے کے دھندے میں مصروف عمل ہے جس کا راستہ بند ہونے کے بعد بے بنیاد پروپگینڈا کررہے ہیں۔
ایک ہزار روپے کے وصولی کے بارے میں اُن کا موقف تھا کہ ٹرمینل میں گاڑیوں کے شب وروز انتظام کے لئے پچاس سے زیادہ افراد خدمات سرانجام دے رہے ہیں جن کو باقاعدہ اُجرت ادا کیاجاتا ہے۔ اُنہوں نے پرتشدد واقعات کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ یونین مقامی پولیس کے ساتھ ملکر اس طرح کے واقعات کی روک تھا م کے لئے کوشش کررہے ہیں۔
ٹرمینل کے قیام سے بڑی تعداد میں مقامی افراد کو روزگا ر کے مواقع بھی میسر آئے۔سید انور کے سڑک کے کنارے چالیس ایکڑ زمین ہے جس میں بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑے ہوتے ہیں اور دن کے حساب سے 150روپے وصول کرتے ہیں۔
چند گاڑی مالکان نے یہ بھی شکایت کی کہ کوہاٹ روڑ سے جیسی ہی گاڑی فرنٹیئر روڑ پر آتی ہے تو وہاں پر ہر ایک گاڑی سے غیر قانونی پیسے لئے جاتے ہیں۔
طورخم میں تعینات کسٹم حکام کے مطابق کرونا سے پہلے بھی چھان بین کے طویل عمل اور ایک سکریننگ مشین کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا تھا جبکہ کرونا وباء کے آنے سے مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے جن میں ڈرائیورز کے تبدیلی، ہر ایک گاڑی پر سپرے اور دیگر اصولوں پر عمل میں کافی وقت ضائع ہو جاتاہے جس کے وجہ سے ہفتے میں بمشکل پانچ سو گاڑیاں کلیئر ہوجاتے ہیں لیکن باڑہ میں قائم ٹرمینل میں آنے والے گاڑیوں کی تعداد کافی زیادہ ہیں جس کے وجہ سے رش بھی بڑھ جاتا ہے۔
کرونا وباء پھیلاؤ روکنے کے لئے طور خم سرحدی گزرگاہ پر مال بردار گاڑیوں کے سخت اصول واضع کیے گئے ہیں جن میں پاکستان سے جانے والے گاڑیاں سرحد پر افغان ڈرائیور اورافغانستان سے آنے والے گاڑیاں سرحد پر پاکستانی ڈرائیور کے حوالے کئے جائینگے۔
مذکورہ فیصلے پر عمل درآمد جاری ہے تاہم ان مشکلات کی وجہ سے گاڑیوں کے مالکان شدید پریشانی سے دوچار ہے۔حالیہ سخت تجارتی پالیسوں اور پاک افغان کشیدہ تعلقات کے بناء دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارتی حجم نچلے ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔