ضیاء اللہ ہمدرد
پلوامہ میں حملہ ہوا، ہندوستان کے چوالیس فوجی مارے گئے، جیشِ محمد نامی تنظیم سے منسلک ایک کشمیری نوجوان نے ذمہ داری قبول کی، جیشِ محمد تنظیم پاکستان میں بنی اور اب بھی ہے اس لئے بھارت نے دھمکانا شروع کیا۔ پاکستان نے وضاحتیں دینا شروع کیں۔ اسے دہشت گردی سے تعبیر کیا، لاتعلقی کا اعلان کیا، ثبوت مانگ کر ملوث لوگوں کے خلاف یقین دہانی کی، مودی نے مزید دھمکانا شروع کیا۔ پاکستان مزید وضاحتیں دینے لگا۔ اس نے سوچا الیکشن ہے تو کیوں نے ایبٹ آباد کی طرح حملہ کرکے جیشِ محمد یا کسی اور جہادی تنظیم کے دفتر، تربیتی مرکز یا مدرسے کو نشانہ بناکر پوری دنیا میں چرچا کروں کہ دیکھو ہم نے بھی گھس کر حملہ کیا اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل تو ساتھ تھا لیکن لگتا ہے امریکہ کی بھی سپورٹ حاصل تھی۔ انہوں نے رات کو حملہ کیا، تین چار بم پھینک کر فرار ہوگئے، بم تو کسی نشانے پر نہیں لگے لیکن انہوں نے پروپیگنڈا شروع کیا اور تین سو لوگوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ یہ معمولی بات نہیں تھی،بلکہ ہندوستان کے لئے خوشی اور پاکستان کے لئے انتہائی پریشان کن موقع تھا۔ فوج کا مورال تو اس ملک میں ہمیشہ ڈاون رہتا ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ قوم کا مورال بھی ڈاون ہوگیا۔
پاکستان نے سوچا کہ اب کیا کیا جائے۔ ان کے پاس دو آپشن تھے، پہلا آپشن یہ تھا کہ چونکہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، بھارتی آئے اور چلے گئے اس لئے معاملے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، لیکن اس کا نقصان یہ تھا کہ پھر کوئی بھی کسی بھی وقت آکر پاکستان کو مندر کا گھنٹا سمجھ کر بجائے گا، اس لئے دوسرے آپشن کو ترجیح دی۔ پاکستان نے اگلے ہی دن جہاز اڑا کر ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں کاروائی کی، ان کے دو جہاز گرائے، ابھی نندن کو پکڑلیا، اسے چائے پلائی، کھلایا پلایا، نئے کپڑے دئے، اور واپس بھیج کر ہندوستان کو کہہ دیا کہ امریکہ کی بات اور ہے اور آپ کی بات اور ہے۔ اس لئے جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ ثبوت دیں ہم کاروائی کریں گے، تو اتنی اوورایکٹنگ کی ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان حملے کے بعد چھا گیا۔ قوم کا سر فخر سے بلند ہوگیا، عمران خان ہیرو بن گیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی پاکستانی جیت گئے، بین الاقوامی میڈیا کے لئے بھی یہ حیران کن تھا کہ کس طرح پاکستان ہندوستان کو جواب دے سکتا ہے اور ان کے جہاز گرا سکتا ہے۔ البتہ انہوں نے بغیر اجازت کے ایف سولہ اڑانے وغیرہ جیسے بہانے تراش کر معاملے کا رخ بدلنے اور ہندوستان کو اس ہزیمت سے بچانے کی کوشش کی۔ مودی کا الیکشن مہم خراب ہوگیا۔ بھارت میں آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں اور اب اس کے پاس مزید کچھ کرنے یا الیکشن ہارنے کے کوئی آپشن نہیں۔
پاکستان کو اس ساری صورتحال کا اندازہ تھا، اس لئے پاکستان نے جلدی جلدی پوری دنیا کو ٹیلی فون کرنے شروع کئے، عمران خان مودی کو مسکالیں مارتا رہا لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہا، البتہ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے ممالک نے دونوں کو معاملات حل کرنے کے مفت مشورے دئے، کسی نے ہندوستان کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنبیہ کی تو کسی نے پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی کے مشورے دئے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے اپنی زندگی میں اتنے خط نہیں لکھے ہوں گے جتنے ان چند دنوں میں لکھے۔ شاہ محمود قریشی محتاط طریقے سے میڈیا کے جوابات دے رہا ہے، پرویز خٹک کی بی آرٹی منصوبے بھی اتنی درگت نہیں بنی تھی، جتنی بالاکوٹ حملے کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر بنی۔ فیاض الحسن چوہان، فواد چودھری اور فیصل وواڈا کے اوٹ پٹانگ بیانات اور اداکاری میں سو گنا اضافہ ہوا، جبکہ شیخ رشید کو بھی جہاد یاد آگیا۔ مجھ سمیت سارے پاکستانیوں پر بھی جذبات حاوی ہوگئے۔ اپنے پشتون گل خان بھائی تو ویسے بھی جنگ کے خطرے کے وقت بہادر قبائیلی ہن جاتے ہیں اور قمیص پھاڑ کر مودی کو دھمکاتے رہتے ہیں لیکن زندگی میں پہلی بار ایک پنجابی بھائی کو پینٹ کوٹ پہنے بندوق اٹھا کر بارڈر پر جاتے اور بیوی کے آشیرباد لیتے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ معاملہ سیرئس ہے۔ جنگ کے خطرے کے دوران افواہیں عام ہوجاتی ہیں، اس لئے پاکستان میں افواہوں میں سو گنا جبکہ بھارتی میڈیا کے جھوٹ میں چار سو گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اب چونکہ غزوہ ہند وقتی طور پر پوسٹ پون ہوگیا ہے لیکن کارڈ اب بھی بھارت کے ہاتھ میں ہے کیونکہ ان کے حملے اور ہماری جوابی کاروائی کے بعد ایک بار پھر ان کی باری ہے، اس لئے پاکستان میں افواج اب بھی چوکس ہیں اور میڈیا پر ابھی جنگ کے خطرات اور ممکنات کی باتیں ہیں۔ لیکن ان حالات میں یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کو اپنے ملک کے اندر تمام غیر ریاستی عناصر کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے، کیونکہ ان لوگوں کی وجہ سے ہی ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا پڑرہا ہے۔ وہ زمانے گئے کہ بھارت سمیت دنیا میں کہیں بھی کوئی کاروائی ہوتی تھی تو پاکستان کے اندر کوئی تنظیم ذمہ داری قبول کرلیتی تھی۔ یہ اکیسویں صدی ہے، اس کے شروع ہوتے ہی، امریکہ پر حملہ ہوا تو امریکہ نے القاعدہ کے خلاف افغانستان کا رخ کیا۔ امریکہ میں بلند ترین عمارتیں کس نے گرائیں اور تین ہزار لوگ کس نے مارے یہ بحث جاری رہے گی، لیکن القاعدہ کی ذمہ داری تسلیم کرنے پر انہیں افغانستان میں اٹھارہ سال تک رہنے کا جواز ملتا رہا۔ داعش امریکہ نے بنایا یا برطانیہ نے لیکن ان کی عراق اور شام میں موجودگی کی وجہ سے آج بھی شام میں دو سو لوگ مارے گئے۔ احسان اللہ احسان جو آج کل جی کیو میں ہے اس کی ذمہ داری لینے کی وجہ سے پاکستان کے قبائیلی علاقوں کو کھنڈر اور ہزاروں لوگوں کو بے گھر کیا گیا اور آج جب پاکستان کو اتفاق کی اشد ضرورت ہے، وہی نفرتیں اور کدورتیں سامنے آرہی ہیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، ریاستی کاروائیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن ان کی مذمت کرنا اس وجہ سے بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ وہاں ریاست یہ دلیل دیتی ہے کہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں بندوق اٹھانے والے ملوث ہیں اور انہوں نے فلاں فلاں کاروائی کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
اس لئے جو ذمہ داری ملک کے اندر اور باہر قبول کرنا کسی زمانے میں آسان تھا، آج دنیا دہشت گردی اور پراکسی لڑائیوں کی وجہ سے اس نہج تک آگئی ہے کہ کسی بھی ریاست کے پاس کسی بھی غیر ریاستی عناصر کی کسی بھی کاروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کا اخلاقی و قانونی جواز نہیں رہا، آج بھی اگر ہم دیکھیں تو دنیا والوں کی اکثریت ہمارے خلاف کھڑے دکھائی دے رہے ہیں اور کسی نے سچ کہا ہے کہ ہم نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے انتہائی کامیابی کے ساتھ ساری دنیا کو تنہا کردیا ہے۔ اس لئے اب پاکستان کے پاس دو آپشنز ہیں۔ یا تو ان سارے غیر ریاستی عناصر کے خلاف کاروائی کرکے ان سے اسلحہ لے لے، یا پھر پاک فوج اسلحہ تھما کر ذمہ داریاں قبول کرنے والوں کی وجہ سے ممکنہ حالات اور صورتحال کا مقابلہ کرے۔ جس طرح یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ بھارت اپنے زیراتنظام کشمیر میں ظلم کررہا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہا ہے، اسی طرح یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ اس ظلم کو کیسے روکا جائے۔ البتہ ساری دنیا میں کسی بھی مسئلے کو حال کرنے کا جو رائج طریقہ ہے وہ یہی ہے کہ اگر آپ کی حمایتی کسی ملک یا قوم کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو اس ملک کی فوج اس کی مدد کے لئے پہنچتی ہے۔ پاکستان کی فوج نے ہندوستانی فوج کی کاروائی کا بدلہ لیا تو پوری دنیا میں کسی نے اعتراض نہیں کیا اور اگر پوری دنیا بھی اعتراض کرے تو بھاڑ میں جائے، لیکن اگر کوئی غیر ریاستی تنظیم کسی حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو سفارتی محاذ پر نہ گل خان اس کا دفاع کرسکتا ہے، نہ فیاض چوہان اور نہ ہی عمران خان۔ اس لئے جس کا کام ہے وہی کرے تو اچھا ہے۔ اور یہی فیصلہ پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، ورنہ پاک بھارت جنگ کے خطرات اسی طرح منڈلاتے رہیں گے۔ البتہ وزیراعظم کی ٹویٹ کے مطابق اگر کسی نے کشمیر کے مسئلے کو حل کردیا تو پورے خطے میں امن قائم ہوجائے گا اور وہی نوبل انعام کا حقدار ہوگا۔
ضیاءاللہ ہمدرد فری لانس کالم نگار ہیں اور جرنلزم پڑھاتے ہیں۔ میڈیا کے بارے میں تحقیق و تالیف سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت، سیاست، مذہب، سماجی امور اور انسانی حقوق کے موضوعات پر بلاگ، کالم اور فیچرز لکھتے ہیں۔ضیاءاللہ ہمدرد کے ساتھ رابطے کیلئے hamdard.journalist@gmail.com پر ای میل کرسکتے ہیں