ماریہ زیب اعوان: تجزیہ کار
بدقسمتی سے پختونخوا میں ولی خان کے بعد سیاسی عوامی مفکر پیدا ہی نہیں ہوا۔ میرے محدود علم کے اور معلومات کے مطابق ایسا کوئی بندہ اب کے پختونخوا میں ہے ہی نہیں جس کی عوامی مقبولیت بھی ہو اور علم سماجیات کا ماہر بھی ہو۔
آپ افراسیاب خٹک، لطیف آفریدی،ڈاکٹر خادم حسین ،ڈاکٹر سہیل،ڈاکٹر سید عالم محسود وغیرہ جو کہ اس کل وقتی خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کو پختونوں کے سب مسائل کا ادراک بھی ہے اور حل بھی ان کے پاس ہے مگر یہ کتابی لوگ زمینی حقائق کا سے نابلد اور نا خبر ہیں، کیونکہ سماج کا مرکزی نقطہ عوام ہوتے ہیں اور عوام کی اجتماعی رائےقوموں کی مستقبل کا تعین کرتی یے ۔
آپ اندازہ لگالیں کہ جب وزیرستان کے جوشیلے نوجوان جذبات کی عروج پر تھے اور یہاں تک چلے گئے تھے کہ اپنے علاوہ کسی کو پختون نمائندہ سمجھتے ہی نہیں تھے حتی کہ اپنے احتجاجوں میں پارٹی جھنڈا لانی پے پابندی لگا دی اور یہ تاثر دیا کہ احتجاج کے لیے پارٹی چھوڑنی ہو گی جو کہ ایک بچگانہ فیصلہ تھا تو یہ سارے دانشور صاحبان بجائے ان نوجوانوں کو سمجھانے خود اسٹیج اور شہرت کی لالچ میں بہہ گئے۔اگر ان حالات میں حاجی غلام بلور اور اسفندیار ولی خان کچھ غیرمقبول فیصلے نہ لیتے تو تشدد اور انارکی نے کی ایک نئی لہر سب کچھ بہا لے جاتی۔
یہی حال کچھ نام نہاد دانشوروں نے پختون اور افغان کے مسئلے کا کیا ہے۔اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ دریائے امو سے لیکر اباسین (دریائے سندھ) اور چترال سے لیکر بولان بشمول مارگلہ اٹک میانوالی یہ افغان قوم کا علاقہ ہے اور اس میں رہنے والے سب کے سب برابر کے افغان ہیں۔اس علاقے میں شمال میں تاجک اور ازبک وغیرہ،سنٹرل اور جنوب میں پختون،ہندکو اور اوپر مارگلہ پے جدون ،تنولی،گجر اعوان وغیرہ جنکو مجموعی طور پر ہزارہ کہتے ہیں اور ساتھ چترالی یہ سب افعان ہیں۔
عددی اعتبار سے پختون باقی قوموں زیادہ ہےاور تقریبا % 55 ہیں مگر ایسا نہیں کہ غیر پختون افغان نہیں ہے۔افغانستان میں پشتو کے ساتھ ساتھ فارسی کو بھی دفتری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور پختونخوا میں یا پاکستان میں رہنے والوں کا یہ مسئلہ ولی خان نے اس طرح ختم کیا کہ رابطہ کی زبان اردو ہوگی یہاں تک کہ صوبائی اور دفتری زبان بھی اردو ہو گی اور مادری زبانوں کی ترویج اور ترقی کے لیے کام ہو گا۔ولی خان کے پورے سیاسی کیرئر میں پختونوں کے نام سے کوئی سیاسی پارٹی ہے ہی نہیں۔آج کچھ وقتی دانشور جو کے پختونوں کی کم علمی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ولی بابا پے تنقید بھی کرتے ہیں انکو مسائل کی حساسیت کا ادراک ہی نہیں انکو معلوم ہی نہیں افغانیت ہے کیا؟
اگر بات ایک افغانیت کی ہو گی تو سب کی برابری کی ہو گی۔بشیر بلور شھید کی دعائے قل ہندکو میں پڑھائی گئی حاجی عدیل ،بلور فیملی،سید عاقل شاہ،ارم فاطمہ ترک،خدیجہ چترالی یہ سب افعان ہی ہے۔ہر پختون افغان ہے مگر ہر افعان پختون نہیں ہے۔اب اس خطے کے قوم پرستوں کو ہزارہ اور چترال کے محرومیوں کے ازالی کے لیے جامع منصوبہ بنانا ہو گا۔اس بات کی سائنسی تحقیق کرنی ہو گی کہ ہزارہ، چترال ،میانوالی ڈیرہ اسماعیل خان میں قوم پرست پارٹیاں کیوں کمزور ہو رہی ہے۔
نوجوان قوم پرست لیڈرز کو بھی ان حساس معاملات کا ادراک ہونا چاہیےلر او بر کے فلسفے کو سمجھنا ہوگا کیونکہ بات ووٹ کے نہیں نظریات کی ہے،بیان بازی سے پہلے چیزوں کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ مشورہ بھی دوں گی کہ ولی خان بابا نے ولی باغ میں جو کتابیں لائبریری میں جمع کی ہیں ان کو پڑھنا لازم ہے۔اسی طرح پختونخوا وطن میں بہت سارے چھوٹی زبانیں ہیں جو کہ وقت کے ساتھ معدوم ہوتی جا رہی ہے،نظریہ باچا خان کے پیروکاروں کی ذمہ داری ہے کہ ان زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کیا جائے ورنہ ایسا نہ ہو ہم تاریخ میں تنگ نظر کہلائیں۔
نوٹ: یہ لکھاری کے ذاتی خیالات پر مبنی کالم ہے۔ادارے کا اس کے متفق ہونا ضروری نہیں۔