شاہین آفریدی
پشاور:لنڈیکوتل میں پچھلے پانچ دنوں سے ڈھائی ہزار سے زائد افراد کھلے آسمان تھلے رہنے پر مجبور ہیں جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہیں۔ لنڈیکوتل بازار میں خالی دکانیں اور مسجدیں بھی بھری پڑی ہے۔ کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوٹلز بند ہیں جبکہ پھنسے افغان شہری رمضان کے اس بابرکت مہینے میں فاکوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔
غزنی سے تعلق رکھنے والا 22 سالہ عبدالبصیر اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ 2 مہینے پہلے پاکستان کے شہر لاہور آیا تھا۔ عبدالبصیر کی والدہ کینسر کی مریض ہے اور شوکت خانم ہسپتال میں علاج کے بعد واپس افغانستان جاتے ہوئے طورخم بارڈر کے قریب لنڈیکوتل بازار میں پھنس گئی ہے۔ عبدالبصیر اپنی فیملی کے ہمراہ پچھلے 4 دنوں سے ایک میکنک کی دکان میں رہائش پذیر ہے۔ ان کی والدہ کو ڈرپ لگا ہے اور تشویشناک حالت میں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ”دونوں ممالک کی پالیسیوں کے تحت عام عوام کو تکلیف پہنچ رہا ہے، ہمیں بتایا گیا کہ طورخم بارڈر ہفتے کے دن عام عوام کیلئے کھول دیا جائے گا لیکن 4 دن گزرنے کے باوجود بند ہے”۔
عبدالبصیر کے پاس ایک روپیہ بھی نہیں بچا، 4 دنوں کے کھانے پینے کے علاوہ وہ زیادہ تر پیسے کرایوں پر لگا چکا ہیں۔
بازار میں موجود زیادہ تر افغان شہری پاکستان کے مختلف حصوں سے واپس ہوکر افغانستان جاتے وقت پھنس چکے ہیں، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ پشاور سے طورخم تک ہر چک پوسٹ پر ان سے ہزاروں روپے وصول کیے گئے ہیں۔
افغانستان کے علاقے تخار سے تعلق رکھنے والا راحت اللہ اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ گزشتہ چھ دنوں سے بازار کے ایک خالی دکان میں رہ رہا ہے۔ راحت اللہ کے مطابق رات کو بارش کے بعد اس کا 9 مہینے کا بچہ بیمار ہوگیا ہے۔ وہ کہتے ہے کہ بچے کی علاج کیلئے اپنے استعمال کا فون کم قیمت پر بیچ دیا۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے 13 ہزار کا موبائیل فون 7 ہزار پہ بیچ دیا کیونکہ مجبور تھا اور بچے کیلئے دوائی لینی تھی۔ یہاں ہر آدمی مجبور اور لاچار ہیں۔ ہمیں کیوں روکا گیا یا مزید کتنے دن ٹہرنا ہوگا کوئی پتہ نہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے واپس بھی نہیں جا سکتے جبکہ چیک پوسٹوں پر پیسے بھی لیے جاتے ہیں”۔
گزشتہ روز حکومت پاکستان نے ٹرانزٹ کیلئے پیر سے لیکر جمعے تک جبکہ عام لوگوں کیلئے ہفتے کے دن پاک افغان بارڈر کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا جس کے باوجود فیصلے پر عملدرآمد نا ہو سکا۔ لنڈیکوتل کے اسسٹنٹ کمشنر محمد عمران کے مطابق پاک افغان بارڈر کھولنے کا فیصلہ این ایل سی اور دیگر اداروں نے کرنا ہے جبکہ انتظامیہ اس میں بے بس ہے۔