یونس خان : سینئر صحافی و تجزیہ نگار
آج آزادی صحافت کا عالمی دن ھے۔اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پرصحافت آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات کا حصول بھی ہے جس میں آزادی صحافت میں پیش آنے والی مشکلات اور رکاوٹوں کا سدباب بھی کیا جا سکے. کسی بھی ملک میں جمہوریت کے معیار اور جمہوری آزادیوں کا پیمانہ جہاں سیاسی آزادیاں ، انتخابات، سیاسی جماعتوں کا وجود اور سیاسی اظہار ہوتا ہے وہیں پر اظہار رائے کی آزادی اور آزاد میڈیا کا وجود بھی اہم پیمانہ ہوتا ہے۔
پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں میں جہاں پریس کے ساتھ ذمہ دارانہ صحافت کے تصور کا لاحقہ لگا کر اسے پابند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان کے عہدیداروں کا مؤقف ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر کسی طرح کی قدغن کی خواہاں نہیں ہے اور عہدیداروں کے بقول میڈیا ملک میں ماضی کی نسبتاً کہیں زیادہ آزاد ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ آزاد اظہار کی آڑ میں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمارا میڈیا اتنا آزاد ہے کہ آڈیو اور ویڈیو ثبوتوں کی بھی تردید نشر کرنا پڑتی ہے۔۔ جس ملک میں انٹرویو کے دوران چینل بند کر دیا جائے اگر اس ملک کا میڈیا سب سے زیادہ آزاد ہے تو پابند میڈیا کیسا ہوگا؟
حکومت میڈیا کے ان عناصر اور صحافیوں سے زیادہ خوش نہیں ہیں جو حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اور اس کے قول و فعل کے تضاد کو نمایاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں آزادانہ سوچ رکھنے والے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو سدھارنے کا عمل جاری ہے۔ پاکستان میں میڈیا اور اس سے وابستہ ایسے صحافیوں و اینکرز کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے ملازمت سے برطرف کیا جا رہا ہے جو مقتدر طبقے اور تحریک انصاف کی حکومت کے ناقد سمجھے جاتے ہیں ۔ موجودہ حکومت سرکاری اشتہاروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ جیسا کہ ماضی کی حکومتیں کرتی رہی ہیں۔سرکاری بیانیے کی مخالفت کرتے نیوز چینلز کو کیبل پر آگے پیچھے کرکے اور اخبارات کی ترسیل اور اشتہارات کی تقسیم پر اثرانداز ہو کر مخالف سمجھی جانے والی آوازوں کو دبانے کی کوششیں کی جا رہے ہیں. ریاستی ادارے ایسے صحافیوں اور میڈیا کو پسند کرتے ہیں جو ان کے بیانیے اور سوچ کو جوں کا توں آگے پھیلائیں۔ ان کے بیانیے پر سوالات نہ کریں اور ماضی کی پالیسیوں اور تجربات کو زیر بحث نہ لائیں۔
آزادی صحافت یا آزادی اظہار کی ایک تعریف پر دنیا متفق نہیں ہے۔ صحافی اور آزادی اظہار کے حامی اس کی کوئی تعریف کرتے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کے مالکان اپنے تجارتی مفادات کے تحت اس کی کوئی اور تعریف کرتے ہیں اور حکومتیں اپنے مقاصد کے لئے، خاص طور سے قومی سلامتی کے نام پر اس کی کوئی اور توضیح کرتی ہیں۔ آزادی اظہار محض صحافیوں کی جنگ نہیں بلکہ پورے معاشرہ کا مسئلہ ہے. صحافت، صحافت ہوتی ہے مثبت یا منفی نہیں، پیلی یا نیلی نہیں ہوتی۔ خبر وہ ہوتی ہے جو حقائق پر مبنی ہو اور پابندی چاہے سنسر شپ کی شکل میں ہو یا مکمل پابندی کی شکل میں، حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے ہوتی ہے۔ پاکستان میں نریندر مودی ماڈل فالو ہورہا ہے۔جو چینلز اینکر پسند نہیں چینل بند یا اینکر کی چھٹی۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت، جن صحافیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں اور جمہوریت کے حامی ہیں، ان کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں صحافت ہی مسلسل خطرے میں قرار دی جاتی رہی ہے۔ کبھی فوجی آمر، کبھی جمہوری رہنما اور کبھی دہشت گردی کی وبا صحافت کی جان کو دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں۔ آج میڈیا کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات میں صحافی اسی وجہ سے سیلف سینسرشپ پر مجبور ہیں۔ صحافت معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے‘ اس کا کردار معاشرے کو اس کا صحیح عکس دکھانا ہوتا ہے لیکن افسوس صحافت کا کردار عموماً اس کے برعکس رہا ہے۔ صحافت نے ہمیشہ امپیریلزم کی حمایت ہی کی ہے، اُسے جو کہا جاتا ہے اور جتنا کہا جاتا ہے وہ وہی کرتی ہے اور کر سکتی ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کے لئے مسائل موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا محاسبہ بھی کربا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ بہت سے ایسے سوال ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا ہوگا ۔ کیا ہماری صحافتی تنظیمیں اپنا کام کر رہی ہیں ؟ کیا وہ آزادی صحافت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جس کے بارے میں ہمیں سوچنا ہو گا ۔ کیا ہمارا کام صحافتی معیار پر پورا اترتا ہے ؟
پاکستان کے اکثر چینلوں کے کسی پروگرام کی کوئی ایڈیٹوریل پالیسی نہیں ہوتی۔ ٹی وی ٹاک شوز چہروں اور شخصیات کے گرد گھومتے ہیں۔ اینکر اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ بڑے اینکروں کی ذاتی رائے، پسند ناپسند ہی ان کی پالیسی ہوتی ہے، جو وقت اور حالات کے ساتھ ‘ایڈجسٹ’ ہوتی رہتی ہے۔ ان کے پروگرام کہنے کو تو عام ناظرین کے لیے ہیں لیکن انھیں اصل پرواہ صرف مقتدر حلقوں کی کرنی پڑتی ہے: فوج کیا سوچے گی؟ مولوی حضرات کیا کہیں گے؟ مالکان کے مفادات کو کوئی ٹھیس تو نہیں پہنچے گی؟ مختلف چینلز پر نشر ہونے والے خبرناموں میں خبر پر کم اور سنسنی پر توجہ زیادہ ہوتی ہے. یہی حال کرنٹ افیئرز کے پروگراموں کا ہے۔
عوام کےاصل مسائل کو چھوڑ کر سنسنی خیز موضوعات پرزیادہ توجہ دی جاتی ہے تاکہ ریٹنگ متاثر نہ ہو لہٰذا ریٹنگ آگے نکل جاتی ہے اور صحافت پیچھے رہ جاتی ہے۔جب تک ہم اپنی کمزوریوں پر قابو نہیں پاتے ، جب تک ہم اپنی غلطیوں کا محاسبہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اپنے حقوق اور صحافت کی آزادی کے لئے جدوجہد کو سہی معنوں میں جاری نہیں رکھ سکتے ۔