محمد عباس: صحافی و تجزیہ کار
دور جدید میں میڈیا ایک ایسے طاقتور ہتھیار کی شکل اختیار کرگیا ہے جو رائے عامہ کو ہموار بھی کرتا ہے اور بگاڑتا بھی ہے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں کسی ملک و قوم کو صفا ہستی سے مٹانا محض بٹن دبانے پر ہوں وہاں روایتی جنگ لڑنے کی بے وقوفی بھلا کون کرے گا! اسی لیے جنگی روایات میں تبدیلی آئی اور دنیا روایتی جنگوں کے بجائے بیانیے کی جنگ لڑنے لگی ہیں۔
کورونا وائرس سے لڑنے کی خاطر اور اس مشکل دور میں غرباء و مستحق افراد کی مدد کیلئے فنڈ اکٹھا کرنے کی غرض سے 23 اپریل کو احساس ٹیلی تھون میں ملک کے معروف عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب نے خطاب میں جہاں کورونا وائرس کو آسمانی آفت قرار دے کر اس کے خلاف لڑنے والی ٹرم کو غلط قرار دیا، وہاں انہوں نے علاج و معالجے، اور اللہ کے حضور معافی و تلافی، اور عاجزی و انکساری کے ذریعے اس وباء کا مقابلہ کرنے کی تلقین کی۔
مولانا طارق جمیل صاحب کا یہ کہنے کی دیر تھی کہ میڈیا مالک نے نصیحت کا کہا جب میڈیا مالک سے میڈیا پر جھوٹ بولنے کے خاتمے کی نصیحت کی، تو میڈیا مالک نے کہنا تھا کہ مولانا صاحب اگر میڈیا سے جھوٹ ختم کیا گیا تو میڈیا ہی ختم ہو جائے گا۔ بس دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ایک جنگ سی چھڑ گئی۔
اب مولانا صاحب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے مذہبی پارٹیوں اور تحریک انصاف سے منسلک نوجوانوں کو جو سیاست کے میدان میں ازلی دشمن تصور کیے جاتے تھے کو یکجا کردیا۔ جب کہ مولانا صاحب کے بیان کے بعد جو لوگ مولانا صاحب کے حق میں بول رہے تھے انکا تعلق مذہبی جماعتوں اور تحریک انصاف سے زیادہ تر تھا۔ جبکہ مولانا طارق جمیل کے خلاف بولنے والوں میں بائیں بازوں کی جماعت سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل تھے۔ اس دائیں اور بائیں بازو نظریات کے حامی نوجوانان میں یہ جنگ لڑی گئی لیکن نام مولانا، حامد میر اور میڈیا کا استعمال ہوا۔
ویسے تو اس ملک میں میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے پیمرا موجود ہے اور اگر کسی کو لگتا ہے کہ میڈیا کسی مخصوص معاملے پر جھوٹ بول رہا ہے یا کسی پر الزام تراشی کررہا ہے تو قانون، عدالتیں، نظام سب موجود ہیں، بوقت ضرورت ان سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اور جیسا کہ اس دور میں ” بیانیہ” سب سے اہم ہتھیار ہے۔ تو مولانا طارق جمیل صاحب کا احساس ٹیلی تھون میں یہ بیانیہ میڈیا کی بدنامی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
خاص طور پر ایسے وقت میں جب حکومت اور میڈیا ایک ساتھ نہیں بلکہ آمنے سامنے ہو، اور حکومت اپنی پالیسیوں و کارکردگی پر نظرثانی کے بجائے میڈیا پر تنقیدی نشتر چلا رہی ہو۔ صحافیوں کو بے یار و مددگار چھوڑا جارہا ہو، میڈیا کے اشتہارات بند کیے جارہے ہو، اور صحافیوں کو قید کیا جارہا ہو۔ بظاہر تو مولانا طارق جمیل صاحب کے بیان میں کچھ نیا نہیں، میڈیا پر جھوٹا ہونے کے الزامات وقتا فوقتا لگائے جاتے ہیں۔ لیکن مولانا صاحب کے بیان پر شدید رد عمل اس لیے بھی سامنے آیا ہے کیونکہ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر ان چیف کرپشن کے الزامات میں تقریبا ڈیڑھ ماہ سے نیب کی قید میں ہے۔ اور بقول اس گروپ سے منسلک صحافیوں کے اس گروپ کے ایڈیٹر ان چیف کو قید میں رکھنا گروپ کو بند کرنے کے مترادف ہے۔
اس سے قبل ہر دور حکومت میں میڈیا کا گلہ گھونٹنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کیے گئے۔ کبھی صحافیوں کو جیلوں میں قید کیا گیا، تو کبھی کوڑے مارے گئے، کبھی ان کو لگام ڈالنے کی خاطر سرکاری اشتہارات دینا روک دیے یا کم کردیے۔ تو کبھی لفظی الزام تراشی پر ہی کام چلایا گیا۔
وزیراعظم عمران خان 2014 دھرنے میں جہاں کنٹینر پر جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمن کو چور، ڈاکو، کرپٹ اور مافیا کہتے رہے، وہی پر اقتدار میں آتے ہی میڈیا پر کاری ضربیں لگانا شروع کیں۔ جنگ، جیو گروپ اور ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار ڈان کے اشتہارات بھی بند کیے تھے۔
حکومت کو سمجھنا چاہئیے کہ میڈیا کی آزادی ہی ملک کی آزادی اور جمہوریت کا فروغ ہے۔ میڈیا سے الجھنے کے بجائے اس کی نشو ونما، میڈیا و صحافیوں کو درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے۔ دریں اثناء حکومت کو چاہئیے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے، معیشت کی بہتری، نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے، تعلیم کے فروغ، اور کرپشن کے خاتمے پر توجہ دے اور اس کیلئے تگ و دو کرے۔