روفان خان : صحافی و تجزیہ کار
جب بھی ملک پر مشکل حالات آتے ہیں تو حکومت وقت نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور غریب طبقے کو اس سے نجات دلانی ہوتی ہے۔ اقتداروالوں کا یہی فرض ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارا دین اسلام بھی ہمیں بطور فرد ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تلقین کرتا ہے اگر ہم صحابہ کرامؓ کے دور کا مطالعہ کریں تو ہمیں بے شمار مثالیں ملیں گی کہ جب بھی کسی صحابیؓ پر کوئی تکلیف آئی تو دیگر صحابہ کرامؓ اس صحابیؓ کی مدد کا ذمہ اُٹھا لیتے۔
اگر ہم آج کی بات کریں تو ان دنوں پوری دنیا کی طرح ہمارا ملک بھی ایک وباء کی لپیٹ میں ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر کی طرح ہماری معاشی صورتحال بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کوروناوائرس کی وباء پوری دنیا میں تیزی سے پھیل چکی ہے اورمزید پھیلنے کا خدشہ ہے۔کوروناوائرس کی وباء ہر ایک شخص کو متاثر کرچکی ہے۔اس وباء کے خاتمے کیلئے تقریباً پوری دنیا لاک ڈاؤن جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس بیماری سے پوری دنیا میں لاکھوں افراد متاثر جبکہ لاکھوں افراد کی اموات ہوچکی ہیں۔
کوروناوائرس سے پوری دنیا کی سرکاری اور نجی مشینری ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے، غریب طبقہ پریشان رہ گیاہے،کاروباری نظام درہم برہم ہے اور غریب طبقہ دووقت کی روٹی کے لیے فکر مند ہے ان مصائب کے ایام میں حکومت کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے کیونکہ غریب اور محنت کش طبقہ اگر مزدوری نہیں کرے گا تو نوبت فاقوں تک آجاتی ہے۔ حکومت اگرچہ احساس ایمر جنسی کیش پروگرام کی صورت میں لاک ڈاون کی وجہ سے بے روز گار ہونے افراد کی مالی مدد کر رہی ہے لیکن یہ کافی نہیں، اس حوالے سے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ کئی مخیرحضرات عوام کی خدمت تو کر رہے ہیں مگر اس میں زیادہ تر افراد کی طرف سے امداد سے زیادہ تشہیر کا پہلو کار فرما ہوتا ہے یعنی چند سو روپے کے سامان کے عوض ان نادار اور غرباء کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی عزت نفس مجروح ہوجاتی ہے۔ان مخیرحضرات میں کچھ اللہ کی رضا کیلئے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں اورکچھ آنے والے انتخابات کیلئے تیاریاں کررہے ہیں۔
پرسوں یوم مزدور منایا گیا اس یوم مزدورکو منانے کا کیا فائدہ,مزدوروں کوکچھ دے نہیں سکتے تو یا د کرنے کی کیا ضرورت ہے۔اس دفعہ کوروناوائرس نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور طبقہ کو تاریخی آزمائش میں مبتلا کر رکھا ہے۔کورونا وبا ء کے باعث زیادہ اثر مزدور طبقے پر پڑا ہے اس سلسلے میں گورنر پنجاب نے خود فرمایا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک کروڑبیس لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں دوسری طرف صوبائی حکومت کے محکمہ ترقیات اور منصوبہ بندی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کوروناوائرس کی وباء کی وجہ سےتیر ہ لاکھ افراد نوکریوں سے محروم ہوسکتے ہیں اب سوچنایہ ہے کہ غریب طبقہ کہاں جائے جب حکومت اس کی مدد نہیں کرے گی تو اور کون ہے کہ اس کی مدد کرے گا فلاحی تنظیمیں تو کام کررہی ہیں لیکن ذمہ داری فلاحی تنظیموں کی تو نہیں ہے اصل ذمہ داری تو حکومت کی بنتی ہے اگر حکومت نے اس مشکل حالت میں غریب طبقہ کی مدد نہیں کی تو شائداس سے براوقت نہیں آئے گا۔