پشاور: شیخان گاؤں میں تاریخی قلعہ یا گھر ؟

Forat-fornt.jpg

اسلام گل آفریدی

آپ میں سے بھی بہت سے لوگوں نے باہر سے پشاور کے علاقے شیخان میں واقع قلعے کو دیکھا ہو گا لیکن شاید بہت ہی کم لوگوں کو اس حوالے سے معلوم ہوکہ یہ قلعہ ہے یا گھر۔ عام لوگوں میں اس حوالے مختلف رائے پائے جاتے ہیں اور اس کو مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں آئیے چلتے ہیں او ر اس تاریخی قلعے کا سیر کراتے ہیں۔

قلعہ کی تعمیر
ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ اور پشاور کے سنگم میں قائم تاریخی قلعہ جن کو عام لوگ گاؤں کے نام شیخان سے یاد کرتے ہیں لیکن اصل میں اس کا نام اکبر قلعہ ہے جن کی تعمیر اٹھارویں صدی میں اُس وقت کے ان علاقوں کے ایک بااثر خاندان کے سربراہ شیخ اکبر خان نے اپنے آبائی گاؤں کوز کلی سے کئی کلومیٹر دور مغرب کے جانب تعمیرکیا تھا جو آج بھی اپنے فن تعمیر کے حوالے سے شاہکار نظر آتا ہے۔ شیخ اکبر خان اس پوری علاقے کا سالار بھی تھی جبکہ اُس زمانے میں پنجاب میں گاؤں یا علاقے کے سطح پر نمبر دار ہواکرتا تھا۔

قلعہ نما گھر میں جدید تعمیر نواسے نواب محبوب علی خان کیا تھا جوکہ پاکستان بنے سے پہلے انگریز دور میں کمشنرکوہاٹ ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ تحقیق کے مطابق آخری بار تعمیراتی کام دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر 1944میں مکمل ہواتھا۔ لیکن محکمہ آثار قدیمہ کے عدم توجہ اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تحفظ ثقافت اور نوادارت(یونیسکو) کے طرف سے بھی آج تک اس تاریخی عمارت کو محفوظ بنانے کے لئے کوئی اقدام نہیں اُٹھایا گیا جس کی وجہ سے عمارت کے بعض حصوں کو وقت کے گزرنے کے ساتھ نقصان پہنچا ہے تاہم خاندان کے لوگ اس کے دوبارہ تعمیرکے لئے اپنے مد د آپ کے تحت پچھلے کچھ عرصے سے مصروف عمل ہے لیکن یہ کام آسان نہیں۔

اکبر قلعہ علاقے میں لوگو ں کے فلاح بہود کے لئے استعمال ہوتا تھااور نہ صرف شیخان گاؤں بلکہ کئی کلومیٹر دور بڈھ بیر اور نواحی علاقوں کے لوگ بھی اپنے علاقائی اور حکومت کے ساتھ مسائل کے حل کے لئے یہاں پر آیا کرتے تھے۔اس وجہ سے حکومتی امور نمٹانے کے لئے عمارت میں الگ حصہ تعمیر کیا گیا تھا جو بالکل سرکاری عمارت کے شکل میں آج بھی موجود ہے اور یہاں پر بینک، کچہری اور دوسرے سرکاری دفاتر موجود تھے۔

جس علاقے میں قلعہ تعمیر کیا گیا ہے وہاں پر شیخان قبیلہ آباد ہے جس کے بارے میں مقامی افراد کاکہنا ہے کہ ان کے آباوا جداد افغانستا ن سے ہجر ت کرکے یہاں پر آباد ہوئے تھے جبکہ موجودہ وقت میں شیخان قبیلہ شمالی افغانستان کے صوبہ پنجشیر میں آباد ہے۔پڑوس میں آفریدی قبائل کے ذیلی شاخ آکاخیل آباد ہے جبکہ درمیان میں واقع بڑا شاہراہ ہے جو متنی کوہاٹ روڈکو تحت بیگ کے مقام پر پاک افغان شاہراہ سے ملاتا ہے۔

قلعہ کا خدوخال
بنیادی پر اس قلعے کو تین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے جن میں ایک مہمان خانہ یا حجرہ، دوسرا گھر جبکہ تیسرا حصہ علاقے کے مقامی آبادی کے مسائل کے حل کے لئے قائم عمارتیں ہیں۔قلعے کے تعمیر میں اُس زمانے کے اینٹیں اور سرح قسم کے مٹی کے ساتھ سوڑن تادھاگے استعمال کی گئی ہے جبکہ لکڑی کو افغانستان سے لایاگیا تھا۔ قلعہ کو مختلف ادوار میں مرحلہ وار تعمیر کیا گیا ہے کیونکہ اس کے خطے کا مکمل احاطہ بارہ کنا ل سے زیادہ ہے جبکہ گھر اور مہمان خانے میں کمروں،ہالوں اور دو تہہ خانوں سمیت کل کی تعداد 75ہے۔ گھر کا نقشہ اورمہمان خانے میں تھوڑا سافرق ہے۔

پورا عمارت ایک منزلہ ہے۔سجاوٹ اور سہولیات کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر آنے والے مہمان نہ صرف اردگرد کے علاقوں سے آتے تھے بلکہ بیرونی ممالک سمیت اس خطے کے حکمران طبقہ بھی باقاعدگی کے ساتھ یہاں پر قیام کرتے تھے۔قلعے کے صحن میں خوبصورت گھا س کے اردگرد مختلف اقسام کے پودیں نظر آتے ہیں جن میں سب سے ا ہم زیتون کے درخت ہے جو لمبے عرصے یہاں پر موجود ہے۔

قلعہ کی اہمیت
قلعے کو جس مقام پر تعمیر کیا گیا وہ ایک غیر آباد علاقہ تھا جبکہ دوسرے طرف سابق قبائلی علاقہ خیبر کے تحصیل باڑہ کے حدود شروع ہوتا ہے اوریہاں پر بھی لوگ مستقل طورپر رہائش پزیر نہیں تھے جبکہ وادی تیراہ سے آنے والے لوگ خچروں پر لکڑی وغیرہ لادکریہاں لاتے تھے جس کو پھر بھیج کر اپنے ساتھ ضرورت کے سامان پشاور سے لیکر واپس تیراہ چلے جاتے تھے۔ آفریدی قبیلے کہ کچھ لوگ گرمیوں میں شیخان اور چوہا گجر میں چند مہینے گزارتے تھے۔شاید شیخ اکبر خان نے اس علاقے کا انتخاب مستقبل میں ان علاقوں کو آبا د کرنا ور آفریدی قبائل کے قبضے سے بچاناتھا لیکن بعد میں قبیلہ آکاخیل اور شیخان کے درمیان زمین کے حد بندی کے مسئلے پر نہ ختم ہونے والے مسائل شروع ہوئے۔

اکبر خاندان کے اہمیت کا انداہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 9/11کے واقعے سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں تعینات برٹش ہائی کمشنرنے اس قلعے میں دوراتیں گزریں تھیں۔چا خان سے لیکر ذولفقارعلی بھٹواور عالمی رہنماؤں نے بھی یہاں پر قیام کیا تھا۔انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ باوجود اس کے سب سے پہلے یہاں پر وہ بنیادی سہولیات موجود تھے جو کہ ہندوستان کے بہت کم علاقوں میں تھے لیکن بعد میں اس علاقے نے کوئی ترقی نہیں کی اور انتہائی پسماندگی کی طرف چل پڑا۔

بنیادی طور پر اکبر قلعے یا گھر کے ساتھ ایک خاندان کا بہتر مستقبل نہیں جوڑا ہوا تھا بلکہ شیخان گاؤں سمیت دوردرازدیہاتوں میں رہائش خلیل اور مومند قبیلوں کے لوگوں تعلیم، صحت، صاف پانی اور بجلی جیسے بنیادی سہولیات سے تقریباً ایک صدی پہلے مستفید ہوتے تھے۔ قلعے سے چند قدم کے فاصلے پر قائم تاریخی ہائی سکول اورہسپتال 1930 میں تعمیر کیاگیا تھا۔ اسی سال گاؤں کو بجلی مہیاکی گئی جبکہ قلعے میں رابطوں کے لئے ٹیلی فون کی سہولت کا بھی انتظام کیا گیا جو کہ اُس زمانے میں زیر استعمال ٹیلی فون سیٹ اب بھی موجود ہے لیکن سیٹ میں کوئی بٹن نہیں ہے جس کے بارے میں بتایا گیاکہ سیٹ میں ریسور رکھنے کے جگہ پر مو جو د بٹن کو دو تین دبا کر پشاور صدر میں چھانی کے حدود میں قائم ایکسچینج کے ساتھ رابطہ ہونے کے بعد درکار نمبر سے رابطہ قائم کیا جاتا تھا۔ اسطرح باہر سے آنے والے کالز بھی ایکسچینج کے ذریعے یہاں پر منتقل کردیا جاتا تھا۔ اس ٹیلی فون کا نمبر 1تھا۔

اس خطے پر جس کی بھی حکمرانی رہی لیکن اکبر خاندان کے اہمیت اور اسرورسوخ برقرار رہی کیونکہ نہ صرف شیخان گاؤں بلکہ کئی دوسری علاقوں میں سیکورٹی کے اہلکاروں نے براہ راست کاروئی نہیں کیں اور سارے مسائل کو اس قلعے میں گاؤں کے سطح پر جرگوں کو طلب کرکے حل کردیا جاتاتھا۔

شیخان گاؤں میں قلعہ کے علاوہ اہم مقامات
شیخان گاؤں میں صوفی بزرگ شیخ ابو سعید المعروف بابا صاحب کا مزار بھی واقع ہے جوکہ علاقے کے عوام کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ بابا کے ساتھ نہ صر ف شیخان گاؤں کے لوگوں کاروحانی رشتہ قائم ہے بلکہ وہ ان کو اپنے قبیلے کے سربراہ یا دادا سمجھتے ہیں۔

9/11کے بعد علاقے میں قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کے شدید لہر میں پشتو کے صوفی شاعر عبداالرحمان بابا کے مزار سمیت کئی مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔باڑہ میں شدت پسند تنظیم لشکر کے کارکنوں نے پیر 3مارچ 2008کو بابا صاحب کے مزار پر مسلح حملہ کردیا جس میں گاؤں کے نو افراد مارے گئے جبکہ مزار کے عمارت کوبھی نقصان پہنچایا گیا۔قلعے کے قریب اکبر خاندان نے تقریبا 64کنال زمین پر مشتمل ایک باغ نھی آباد کردیا جس میں مختلف قسم کے نایاب پودیں لگائے گئے تھے جبکہ باہر سے آنے والے مہمانوں کے قیام کے عمارت بھی تعمیر کیا گیا جوکہ موجودہ وقت میں دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کافی متاثر ہوچکا ہے۔

باڑہ اور شیخان گاؤں کو ملانے والی تاریخی پل جو دریا باڑہ پر تعمیر کیا گیا ہے بھی کافی اہمیت رکھتا ہے جبکہ موجود ہ وقت میں پرانے پل چندقدم کے فاصلے پر مشرق کے جانب نیا پل تعمیر کیا گیا ہے۔ دریا میں بہنے والے پانی کے دونہریں نکلے ہوئے ہیں جن میں ایک شخان جبکہ دوسرا سنگو گاؤں کق سیر اب کرتاہے جبکہ پانی کے تقسیم کا یہ نظام محکمہ آبپاشی کے مطابق مغل دور میں رائج کیاگیا تھا۔

اکبر خاندان
اکبرخاندان کے ابتداء شیخ اکبر خان سے شروع ہوتا ہے جس کا ایک بیٹے نواب محبوب علی خان جوکہ اپنے علاقے کے نواب کے ساتھ اعلیٰ سرکاری عہدیدار یعنی کمشنر کوہاٹ ریٹائرڈ ہواتھا اور دوسرا شیخ شیر علی خان تھا۔ محبوب علی کے دو بیٹے شیخ مرزاعلی خان اور ظفر علی خان تھے۔شیخ مرزا علی خان جو ایک اعلیٰ سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ ہو ا تھا جن کے دوبیٹے شیر اکبر خان، عزت خان اور ایک بیٹی تھی جبکہ ظفرعلی کے اولاد نہیں تھے اوروہ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم من منموہن سنگھ اور فلم سٹار ششی کاپور کے ساتھ ایک زمانے میں ہم جماعت تھے اور منموہن سنگھ کے ساتھ تو دوستی اتنی پکی تھی کہ وزیر منتخب ہونے کے بعد سرکاری دعوت نامے پر ہندوستان بھی بلایا تھا۔ موجودہ وقت میں شیر اکبر خان اور عزت خان قلعہ میں اپنے خاندان سمیت رہتے ہیں۔

قلعے کے اندر نوادرات
عمارت کے کمروں میں تاریخی سامان جن میں عام استعمال چیزیں، جنگی سازوسامان، تاریخی شخصیات کے تصویر،مہمانوں کے تاثرات درج کرنے والے کتابوں کے کئی جلدیں اور فرنیچر وغیرہ قابل دید ہے۔

زراعت میں استعمال ہونے والے پرانے آلات جن میں بیل گاڑی کا لکڑی سے بنا ہوا گاڑی اپنے اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔

تصویر میں تحریک آزادی کے سرگرم رکن ابرہیم جھگڑا جو موجودہ صوبائی وزیر حزانہ تیمور جھگڑا کے پردادا، سوات کے پہلے والی،نواب دیر، مردان کے مغل باز جنہوں نے عجب خان آفریدی سے مس کے رہائی میں انگریزوں کی مدد کی، شیخ اکبر خان، شیر اکبر خان، بابا صاحب کے زیر استعمال دو تلواریں، ظفر علی خان کا منموہن سنگھ کے ساتھ تصویر،سرجان کان گیم جو صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا) کا گورنر رتھااور پشاور میں اس کے نام سے ایک پارک بھی موجود ہے اور دیگر اہم شخصیات کے تصویر یہاں پر آپ کو دیکھنے کو مل جائینگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top