جمیل اقبال : سینئر صحافی
پاکستان ٹیلی وژن کیلئے بجلی صارفین کے بلوں میں اب 35 کی بجائے 100 روپے شامل کرنے اور یہ رقم ساڑھے سات ارب روپے ماہانہ سے تقریباً 21 ارب روپے تک پہنچنے کے بعد اپنے گذشتہ کالم میں میں نے پی ٹی وی پشاور کی کارکردگی کا جائزہ لیا تھا اور چند سوالات اٹھائے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس کالم کو پسند کیا اور پی ٹی وی پشاور کے کردار اور معیار کے حوالے سے انکے تاثرات بھی تقریباً وہی تھے جس کا کالم میں ذکر تھا۔ بعض دوستوں نے اس کالم سے اتفاق نہیں کیا بلکہ تحفظات اور ناراضگی کا اظہار کیا۔
میں تمام قارئین اور خصوصاً فیڈبیک دینے والوں کا شکریہ ادا کر تا ہوں اس کے ساتھ ساتھ میں یہ عرض کرتا چلوں کہ میری تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری ہر گز نہیں بلکہ ایک ذمہ دار اور ٹیکس دہندہ پاکستانی شہری ہونے کے نا طے قومی اداروں پر تنقید اور اصلاح کے لئے تجاویز دینا اپنا قومی فرض سمجھتا ہوں۔ جہاں تک بعض دوستوں کی جانب سے ان تاثرات کا تعلق ہے کہ یہاں اب بھی معیاری کام ہوتا ہے۔مجھے اس سے بالکل اتفاق ہے اور گذشتہ کالم کی طرح یہاں بھی اسکا اعتراف کرتا ہوں کہ ڈاکومینٹریز کے حوالے سے پی ٹی وی پشاور نے ہمیشہ معیاری کام کیا ہے اور حال ہی میں پروڈیوسر ابراہیم کمال نے وادی سندھ کی تہذیب اور پاکستان کے ثقافتوں کے حوالے سے جو دستاویزی پروگرام بنائے ہیں وہ پشاور سنٹر کے سر کا تاج ہیں ۔
پی ٹی وی ہمیشہ ان پروگراموں اور ابراھیم کمال جیسے پروڈیوسرز پر فخر کریگا،ڈرامے کے میدان میں بھی کچھ دوست اچھا کام کررہے ہیں البتہ جہاں تک ادارے کے معاشی مسائل کا تعلق ہے تو یقیناً اس حوالے سے بات ہونی چاہئے۔ ہر چند کہ اس میں مرکزی حکومت کی طرف سے بھی مجرمانہ غفلت سامنے آتی رہی ہے لیکن یہاں کی انتظامیہ نے بھی اس حوالے سے اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا نہیں کیا اور اپنے فنکاروں کی آواز صحیح معنوں میں نہیں اٹھائی۔چونکہ ریکارڈ اور تاریخ کی درستگی کے حوالے سے چند دوستوں نے تجویز دی تو بتاتا چلوں کے اس وقت پشاور سینٹر کی فیس دیگر سینٹرز سے بہت کم ہے۔ مثلاً یہاں کا سینیر ترین نیوز کاسٹر ہارون الرشید جس کی صلاحیتوں کا صدارتی سطح پر اعتراف ہو چکا ہے۔اب بھی شرمناک حد تک کم پیسے وصول کر پاتا ہے۔
باقی تمام سینٹرز میں نیوز کاسٹرز کی فیس کئی گنا زیادہ ہے۔ حالات حاضرہ کے جس پچاس منٹ پروگرام کی فیس اٹھارہ سو روپے اور جس پچیس منٹ پروگرام کی فیس تقریباً آٹھ سو روپے ہیں وہ آج سے بیس سال پہلے بھی اتنی ہی تھی۔اگر کسی کو اعتراض ہے تو ریکارڈ چیک کرلیں۔کیا اس حوالے سے جنرل مینیجر اور پروگرام مینیجر پر تنقید نہیں بنتی؟چونکہ چند دوستوں نے ریکارڈ کی درستگی کی بات کی ہے تو اپنی صحافتی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اب ثبوت کے طور پر چند حقائق پیش کرتا چلوں تاکہ دوست ناراض نہ ہوں اور اگر اسکے باوجود کسی کو اعتراض ہے تو اپنے آئندہ کالم میں ان کی تجاویز بھی شامل کروں گا۔
میں نے اپنے گذشتہ کالم میں پی ٹی وی نیشنل کے پشتو پروگراموں کے حوالے سے بات کی تھی ۔ پوری دنیا میں ٹی وی پروگراموں کے میزبان انتہائی اہل علم و دانش لوگ ہوتے ہیں جو پوری تیاری کرکے آتے ہیں۔اب مجھے کوئی بتائے کہ جہانگیر یوسفزئی،ملکہ خالق،فوزیہ بخاری، لطیف اللہ کی کوالیفیکیشن کیا ہے؟ان کی تیاری کیا ہے؟کیا یہاں یہ تاثر نہیں ملتا کہ اس حوالے سے انتظامیہ مصلحتوں کا شکار نظر آتی ہے۔ یہا ں پہ میرا سوال بحیثیت ناظر اور ذمہ دار پاکستانی شہری یہ بنتا ہے کہ ان میزبانوں کے انتخاب میں کونسے معیار اور تعلیمی قابلیت پرکھے جاتے ہیں اور یہ کہ سب زبانوں کے میزبانوں کی کوالیفیکیشن پبلک کی جائے تاکہ ناظر کو پتہ چلے اور فیصلہ کر سکے کہ جس بندے کا پروگرام دیکھنے کے لئے وہ اپنا قیمتی وقت دے رہا ہے کیا وہ اس قابل ہے؟
ان میں تو ایسے بھی لوگ ہے جیسے لطیف اللہ جو پیشے کے اعتبار سے ڈسپنسرہے (جو ہمارے لئے قابل احترام ہے اور نرسنگ کا شعبہ ایک مقدس شعبہ ہے)لیکن وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہتے ہیں جس پر انتظامیہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہے، کیا یہ جرم نہیں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ حالات حاضرہ کے پروگراموں میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر بطور ایکسپرٹ بھی بات کرتے ہیں،کیا یہ زیادتی نہیں؟ جب آپ کے پاس پشاور یونیورسٹی میں ڈاکٹر حسین شہید سہروردی،ڈاکٹر فیض اللہ جان ،ڈاکٹر شبیر احمد،ڈاکٹر منہاس مجید،ڈاکٹر محمد رؤف اور بے شمار قابل ترین لوگ موجود ہیں۔اسی طرح جہانگیر علی اور فوزیہ بخاری کی گفتگو میں بھی کوئ ربط ہوتا ہے نہ کوئی گہرائی ، ناظرین پروگراموں دے کچھ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن مذکورہ افراد بغیر کسی سکرپٹ، تیاری اور تحقیق کے اپنے فلسفے جھاڑتے ہیں جو سینٹر کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر گلزار جلال ، ڈاکٹر سعود اسلام اور محمد آفتاب انتہائ معیاری کام کر رہے ہیں۔
میری گذارش ہے کہ اس سلسلے میں اخونزادہ عابد حسین الفت کی خدمات حاصل کی جائیں جس نے ان نشریات کی بنیاد رکھی ۔ عابد حسین نے ان نشریات کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچانے کے لئے دن رات محنت کی لیکن معلوم نہیں وہ کیوں سینٹر سے باہر ہیں جب کہ ان کا آفس پی ٹی وی سے چند گز کے فاصلے پر ہے ۔ میرا مقصد صرف ریکارڈ کی درستگی اور اب کی بار ثبوت کے ساتھ بات کرنا ہے۔ ادارے کے سربراہوں کو اس حوالے سے سوچنا چاہیے کیونکہ یہ ہم سب کا ادارہ ہے اور یہ ادارہ جتنا معیاری کام کرےگا اس سے ہمارا ہی نام روشن ہوگا۔تنقید پر ناراض ہونے کی بجائے اپنے اصلاح کی کوشش کی جائے۔البتہ وفاقی حکومت بھی پشاور سینٹر کے ساتھ زیادتیاں بند کرے لوکل ٹائم گاہےبگاہے کم کرنے کی مذموم حرکت بند کرے پشتو کے ساتھ سو تیلی ماں کا سلوک بند کرے۔پشاور سینٹر کی قربانیوں اور کارکردگی کی حوصلہ افزائی کرے اور اس سینٹر کو وہی مقام دے جو باقی مراکز کو دیا گیا ہے۔