جمیل اقبال: سینئر صحافی
حکومت نے غربت،مہنگائی،بے روزگاری تبدیلی اور آخر میں کرونا کے ستائے ہوئے عوام پر ایک اور احسان کر دیا ہے۔ اب بجلی کا ہر صارف اپنے بل میں اضافی 100 روپے ادا کرے گا جو پی ٹی وی کو ملیں گے۔ اسطرح حکومت کو ماہانہ 21 ارب روپے ملیں گے پہلے یہ رقم 35 روپے جس سے حکومت کو 7 ارب روپے ملتے تھے۔ یہاں مسئلہ 35 یا 100 روپے کا نہیں بلکہ پا کستان ٹیلی وژن کے معیار کا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی وی کی نشریات ملک کی 95 فیصد آبادی تک بلواسطہ یا بلاواسطہ پہنچتی ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ لوگ اس کیلئے پیسے دیتے ہیں-ایک سرکاری ادارہ ہونے کے ناطے ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت تعلیم،معلومات اور تفریح کا یہ مواد عوام تک مفت پہنچاتی بحرحال حکومت سے کیا توقع رکھیں۔
میری دلیل یہ ہے کہ بھلے حکومت اب بجلی کے بل میں ہر صارف سے 100 روپے بہ رضا یا بالجبر وصول کر لیا کرے لیکن پھر عوام کو یہ بھی اختیار دیا جائے کے اگر ان کے پیسوں سے منظور نظر افراد کو نوازا جاتا ہے،سیاسی بنیادوں پر بھرتی کی جاتی ہے یا نشریات اور مواد کا معیار کمپرومائز کیا جاتا ہے تو پھر ان کے ہاتھ اگر حکومت کے نہیں تو متعلقہ ٹی وی سنٹر کے اربابانِ اختیار کے گریبانوں تک ضرور پہنچ پائیں۔پی ٹی وی کا ایک پرانا ناظر ہونے کے ناطے میں یہ بات وثوق،دلیل اور ثبوت سے کہہ سکتا ہوں کہ اسکا معیار روز بروز گر رہا ہے۔
ٹی وی پر نظر آنے والے افراد کسی نہ کسی خواص کے رشتہ دار یا کسی حکومتی عہدیدار کی پرچی لے کر آئیں ہیں۔چونکہ میرا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے اور میرا سب کچھ اسی صوبے میں ہے تو میرا سنٹر پے ٹی وی پشاور ہے اس لیے مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں پی ٹی وی پشاور سنٹر کے کردار،معیار اور انداز پر بات بھی کروں اور اپنے وسیع تجربے کے بعد مجھے کوئی چیز معیار سے گری ہوئی نظر آئے تو تنقید بھی کروں،بلکہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے میں مناسب وقت پر وزارت اطلاعات اور بنی گالہ تک پہنچانے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں اور اس حوالے سے میں نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اسمبلی کے بعض اراکین سے بات بھی کی ہے۔
پشاور سنٹر کی کارکردگی کاُحال تو یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والوں کو گزشتہ 3 سالوں سے ادائیگی نہیں ہوئی۔ یہاں کام ہی کتنا ہوتا ہے؟ صرف نیوز سیکشن،کرنٹ افیئرز اور کسی حد تک پی ٹی وی نیشنل پر کام ہوتا ہے لیکن ان کو بھی ادائیگی نہیں ہوتی،باقی سٹوڈیوز بند کر دیے گئے ہیں تاکہ پروڈیوسرز صاحبان گھر بیٹھے تنخواہ لے سکیں۔اب اگر باری باری بات کی جائے تو نیوز سیکشن کا سربراہ محمد عرفان خان ایک تعلیم یافتہ اور باصلاحیت انسان ہے اور اپنی پوری کوشش کررہا ہے کہ باصلاحیت لوگوں کو سامنے لے کر آئے اور ان میں ہارون الرشید (تمغہ امتیاز)،بخت زمان یوسفزئی اور ہند کو میں کسی حد تک مریم شفیق قابل ذکر ہیں جو نیوز کاسٹنگ کے پروفیشن کا تقدس اور اہمیت سمجھتے ہیں۔
اسطرح حالات حاضرہ کے پروگراموں میں بھی ریاض داؤد زئی،بخت زمان،شمس مومند اور اشرف ڈار اچھے کمپیرز ہیں اور شعبہ حالات حاضرہ کے سربراہ ظاہر محمود خٹک پوری تندہی سے پروگراموں کا معیار بہتر بنانے کیلیے کوشاں ہیں اور انکے پروگرامز میں جدت بھی نظر آتی ہے لیکن ماضی میں میں یہ شعبہ ایسے منظور نظر کمپیرز اور سکرپٹ رائیٹرز کے ہاتھوں تباہ ہوا جن کے ساتھ پروڈیوسرز کے ذاتی یا کاروباری مراسم تھے اور ان میزبانوں نے پروگراموں کا بیڑا غرق کردیا تھا ۔
اب آتے ہیں پی ٹی وی نیشنل کی طرف! اگر ہندکو پروگراموں کی بات کی جائے تو ملک ارشد حسین،سحرش بخاری اور حنا رؤف پروڈیوسر خالد حسین شاہ کی نگرانی میں معیاری کام کر رہے ہیں لیکن جہاں تک پشتو پروگراموں کی بات ہے تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جنرل منیجر،پروگرام منیجر اور متعلقہ پروڈیوسر کن مصلحتوں کا شکارہیں۔ پروگراموں میں سنئیر سیٹیزن کمپئیرز سے نہ جانے وہ کونسا قلعہ فتح کرنا چاہتے ہیں۔ پشتو پروگراموں کے لیے نوجوان اور اعلی تعلیم یافتہ میزبانوں کی ضرورت ہے نہ کہ ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کام کرنے کی اس وقت پشاور سنٹر کو چند معیاری اچھے ڈرامے،ڈاکومینٹریز اور موسیقی کے پروگرام شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔وگرنہ 100 روپے ماہانہ ادا کرنے والے صارفین یہ حق محفوظ رکھتے ہیں کہ اپنا حق حاصل کریں اور پشاور سنٹر کی انتظامیہ کا قبلہ درست کرنے کے لئے ہر حد تک جائے۔