جمیل اقبال، سینئر صحافی
د ھنر وارثان وارثان یعنی ھنر کے وارث، ھنر و فن کے رکھوالے اور آرٹ کے امین،اس نام سے خیبر پختونخواہ کے ھنرمندوں کی ایک تنظیم اس وقت اپنی تخلیق کے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے۔ایک لکھاری اور ادنیٰ ھنرمند ہونے کے ناطے میں بھی کبھی کبھی ان ھنرمندوں کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرتا رہتا ہوں۔آج کل چونکہ ان ھنرمندوں کے حوالے سے تواتر کے ساتھ خبریں ھماری نظروں سے گزر رہی ہیں اس لئے اصلاح احوال کی غرض سے چند گزارشات آپ سب کے سامنے رکھتا ہوں۔
زندگی کی دیگر طبقوں کی طرح کرونا کی صورتحال سے ہماری فنکار برادری بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پشاور یا خیبر پختونخوا میں کام کرنے کے مواقع اور معاوضے پہلے ہی بہت کم تھے جو موجودہ حالات میں تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ان حالات میں چند دوستوں نے جیسے تیسے مخیر حضرات تک رسائی حاصل کی جس کے نتیجے میں انھیں کچھ مالی مدد ملی۔ اس امداد کی تقسیم، انتخاب کے طریقہ کار اور دیگر حوالوں سے بہت سے فنکار شدید بے چینی کا شکار ہوگئے اور بہت سے دوستوں نے مجھ سے بھی رابطہ کیا تاکہ ان کی آواز کسی نہ کسی طریقے سے اربابان اختیار تک پہنچ جائے۔
پہلی گزارش تو یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے فن،فنکار اور ھنرمند کے حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو ختم کرنا ہوگا۔ باقی دنیا کے برعکس خیبر پختونخوا میں فنکار صرف اسی شخص کو سمجھا جاتا ہے جو یا تو گلوکار ہے یا ڈرامے کا اداکار ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کی وہ قومیں جو فن اور فنکار کی قدرومنزلت سے آگاہ ہیں انھوں نے یہ تعریف تبدیل کر رکھی ہے۔ان کی تعریف کےمطابق ھر وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے کوئی ھنر دیا ہے جس کے ذریعے سے وہ رزق کماتا ہے اور اس کا ھنر اور قابلیت ، زبان ، ادب اور ثقافت کی ترویج کا باعث بنتا ہے وہ ھنر مند ہے۔
اس تعریف کی رو سے ہمیں سب سے پہلے ان سب لوگوں کا ھنر مند تسلیم کرنا ھوگا اس حساب سے ڈرامہ آرٹسٹ،گلوکار، موسیقار ،اینکر پرسن ،نیوز کاسٹر، اناؤنسر،صدا کار ، قاری، نعت خوان،مجسمہ ساز،مصور،میوزک ارینجر،بیک گراونڈ میوزیشن سب ھنرمند اور فنکار ہیں کیونکہ یہ سب پرفارمنگ آرٹ کی جہتیں ہیں۔ لہٰذہ گلوکاروں اور اداکاروں کو ان باقی لوگوں کو بھی ھنرمند تسلیم کرناہوگا۔ یہ تفریق زبان،علاقے اور جغرافیائی حدود وقیود سے بھی آزاد ہونی چاہئے۔اسلئے خالد خٹک ہو یا کوئ اور، یہ کام جس کے بھی سپرد ہو کو مستحقین کی فہرست تیار کرتے ہوئے یہ سارے عوامل اور حقائق سامنے رکھنے ہوں گے۔
میری دوسری گزارش اس امداد کے حوالے سے ہے جو ملک کے ایک سرمایہ کار نے خیبر پختونخوا کے فنکاروں کے لئے بھیجی جو بد قسمتی سے ذاتی پسند ناپسند کی نظر ہوگئی۔یہاں یہ کام خالدخٹک کے ذمے لگایا گیا جس نے پہلے تو سب ھندکو اداکاروں (صرف ڈرامہ آرٹسٹ) کی لسٹ بنائی اگر چہ میں ذاتی طور پر ھندکو،پشتو یا کسی بھی زبان کے حوالے سے کسی تمیز کا قائل نہیں، وہ بھی ہمارے بھائی ہیں لیکن اس فہرست میں مجھے پشتو کا کوئی فنکار نظر نہیں آیا۔
میں نے اس فہرست میں وہ نام بھی دیکھے جن کو ہم نے پی ٹی وی پشاور میں بڑے ٹھاٹ باٹ سے آتے دیکھا ، اس فہرست میں گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے سر کاری ملازم بھی نظر آۓ جو امداد لینے کے نہیں بلکہ دینے والوں کی فہرست میں شامل ہونے چاہیے تھے۔ یہ بات خالد خٹک ، صوفیہ مرزا اور ان سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ کسی حقدار کا حق من پسند افراد کو اس لئے دینا کہ وہ کسی براہ راست پروگرام میں آپ کی تعریف کریں گے ، بہت ظلم ہے۔ اس کا حساب اگر ابھی نہیں ھوگا تو روز قیامت تو ضرور ہوگا۔
میری گزارش یہ ہے کہ اس حوالے سے مزید کسی مہم جوئی سے پہلے فہرستوں کی ترتیب میں انتہائی احتیاط سے کام لیا جائے اور ملک ریاض یا کسی اور صاحب استطاعت کو کسی شخص پر اندھا اعتماد کرنے کی بجائے متعلقہ میدان کے ایکسپرٹس سے رابطہ کرنا چاہئے۔ڈرامہ اداکاری کے حوالے سے جاوید بابر،اسمعیٰل شاید،سید رحمان شینو،طارق جمال،نوشابہ،شازمہ حلیم، ارشد حسین ، قاضی عارف ،گلوکاری کے حوالے سے ماسٹر علی حیدر، نذیر گل،گوھرجان، اے آر انور نیوز کاسٹنگ میں ہارون الرشید صداکاری میں غلام محمود شھاب، مجسمہ سازی میں جمال شاہ، مصوری میں انیس بشیر، میوزیشن میں زرواستاذ،فرخ زیب اور کئ جانے مانے ایکسپرٹس اور اسطرح دیگر شعبوں میں بھی ماہرین کی رائے شامل کرکے مستحق افراد کی فہرست تیار کی جائے تاکہ حق حقدار تک پہنچے۔