حاجی لیاقت کے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا،پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن

DDDD.jpg

پشاور:پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن  کے صوبائی کلچر سیکرٹری اور ایم فل سکالر شوکت سواتی نے  ایس ٹی سی کینٹین کے مالک حاجی لیاقت کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کے پشاور یورنیورسٹٰی کے طالبعلموں  کیلئے والد کا درجہ رکھتے تھے ،جب بھی اُن سے ملنے کا موقع ہاتھ آتا تھا تو پیارومحبت کے ساتھ پایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں جب بھی کینٹین میں کچھ کھانے کیلئے جاتا تھا تو سب سے پہلے اُن سے سلام و دعا ہوتی تھی،وہ ایک مہربان شخصیت تھے ہمیشہ طلباء کے کامیابی کے دعائیں کرتے تھے۔

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن پشاور یونیورسٹی کے سابق چیئرمین اور شعبہ پشتو میں پی ایچ ڈی سکالر طارق خان نے مرحوم کے موت کو ایک سانحہ  قرار دیا اور کہا کہ مرحوم نے انسانی خدمات بالخصوص طلباء کے لئے جوخدمات انجام دی ہیں ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہ مرحوم کا اس فانی دُنیا سے جانا پشاور یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ قوم وملت کا بہت بڑا خسارہ ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سینٹر پشاور  نے مرحوم کے انتقال کو پشاور یونیورسٹی کیلئے ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ پشاور یونیورسٹی آج ایک سچے خدمت گار سے محروم ہوگئی۔

فیس بک پر پوسٹ کرتے انہوں نے لکھا کہ جو لوگ 1980 کی دھائی سے لیکر اب تک کسی نہ کسی حوالے سے پشاور یونیورسٹی کیمپس سے وابستہ رہے ہیں اور STC کے کینٹین سے کھا پی چکے ہیں وہ اس شخص کو ضرور جانتے ہیں۔ 

انہوں نے لکھا دیگر طلباء کی طرح حاجی لیاقت کے کینٹین سے زمانہ طالب علمی میں خورد و نوش کرتا رہا اور جب سے اسی یونیورسٹی میں تدریس شروع کی ہے تو ہر بڑی تقریب میں حاجی لیاقت کے تیار کردہ کھانے کھائے ہیں۔ وہ ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے اور بے شمار بار ایسا ہوا کہ کسی تقریب میں پلیٹ لیکر کھا نا کھاتے ہوئے اپنے پہلو میں حاجی لیاقت کو پایا ہے جن کے ہاتھوں میں اضافی کھانا یا سیخ تکہ ہےاور مسکرا کر پیش کر رہے ہیں یہ کہتے ہوئے” سر یہ لیجئے پسند آئے گا”۔

 

پشاور یونیورسٹی ٹیچر ایسوسیشن (پیوٹا) کے سابق صدر پروفیسر  ڈاکٹر جمیل چترالی نے فیس بک پر لکھا کہ ان کی موت یقیناً انکے دوست احباب اور رشتہ داروں کیلئے ایک صدمہ ہے لیکن وہ تمام احباب اور سفید پوش ملازم جو دوران ملازمت انکے دسترخوان سے بلاناغہ روزانہ کی بنیاد پر مستفید ہوتے تھے انکے لیے یہ خبر صدمے کیساتھ ساتھ ایک دھچکہ ہے۔

انہوں نے لکھا کہ مرحوم کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ فوتگی کسی کے بھی گھر ہو جائے ۔ مھمان نوازی کے جملہ انتظامات فوراً اورفری کرلیتے اور ان تمام کراکری کرسی وغیرہ کا کوئی کرایہ یا معاوضہ وصول نہ کرتے اور یہ صدقہ جاریہ ہر امیر غریب ملازم کیلیے یکساں تھا۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top