پشاور:پشاور ہائی کورٹ نے منگل کے روز قبائلی صحافی حیات اللہ خان کو دسمبر 2005 میں اغوا کر نے اور جون 2006 کے وسط میں قتل کرنے کے سلسلہ میں پشاور ھائی کورٹ کے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے رپورٹ کو شائع کرنے اور لواحقین کے حوالے کرنے کے سلسلے میں ایک آئینی درخواست ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جواب داخل کرنے کا نوٹس جاری کر دیا ھے ۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی سے تعلق رکھنے والے صحافی حیات اللہ کو پانچ دسمبر 2005 کو نامعلوم افراد نے اغواء کیا تھا جس کے بعد میں ملک گیر مظاھرے ھونے کے باوجود انکی بازیابی ممکن نہیں ھو سکی تھی۔۔سولہ جون 2006 کو حیات اللہ کی گولیوں سے چھلنی لاش خوشحالی طوری خیل میرعلی میں سڑک کے کنارے ملی تھی۔ حیات اللہ کو قتل کرتے وقت انکے دونوں ھاتھ پیٹھ کے بل ھتکڑیوں سے بندھے ہوئے تھے۔
اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر حیات اللہ کے قتل کے خلاف مظاھروں اور صحافیوں کے تنظیموں کے مطالبے پر پشاور ھائی کورٹ کے ذریعے عدالتی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ محمد رضا خان مشتمل کمیشن نے درجنوں افراد بشمول حیات اللہ کے رشتے داروں، صحافیوں ، شمالی وزیرستان کے انتظامی اور سیکورٹی عہدیداروں اور دیگر کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد 32 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کرکے حکومت کے حوالے کیا تھا جو ابھی تک گورنر ھاؤس پشاور میں مقفل پڑا ھے ۔
حیات اللہ کے بھائی احسان اللہ نے سینئر وکیل لطیف آفریدی ایڈوکیٹ اور طارق افغان ایڈووکیٹ کے وساطت سے حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ میں تحقیقاتی کمیشن کے رپورٹ کو انکے حوالے اور شائع کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ایک آئینی درخواست دائر کردی۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس لال جان خٹک اور جسٹس سید عتیق شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے منگل کے روز اس رٹ پیٹیشن کی سماعت کی۔ طارق افغان ایڈوکیٹ درخواست گزار کی جانب سے پیش ھوئے اور انکی استدعا پر عدالت نے اس رٹ پیٹیشن کو ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آئیندہ سماعت پر موقف پیش کرنے کے نوٹسز جاری کر دیئے۔