یونس خان، سینئر صحافی
آج کل فرانس میں لاک ڈاؤن ہے اسلئے پچھلے 7 ہفتوں سے ہم گھر پر ہی ہیں ۔کام بھی کوئی نہیں تو گھر میں اسطرح سے رہنا ایک مشکل کام دکھائی دیا ۔زیادہ سے زیادہ خبریں ٹیلی ویژن ، دوستوں یا پاکستان میں گھر والوں کو فون کر کے کچھ نہ کچھ اپنا وقت پاس کرنے کی کوشیش کی ۔لیکن وہ بندہ جو آوارہ گرد ہو کھبی گھر میں نہیں ٹکا ہو اسکے لئے سارا دن گھر میں رہنا بہت مشکل کام ہے ۔
اس مشکل سے نکالنے کے لئے ایک دوست نے نہایت اچھا مشورہ دیا کہ آپ پاکستانی ڈرامے دیکھو ۔ بہت عرصہ ہوا تھا ڈرامے نہیں دیکھے تھے اسلئے ایک ، دو، تین کئی ڈرامے دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ڈراموں میں جس کو اچھا دکھایا جاتا ہے وہ اتنا اچھا ہوتا ہے کہ عام زندگی میں ایسا کردار یا آدمی ملنا نا ممکن ہوتا ہے ۔ڈرامے ہمارے بہت اچھے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن بعض ایسے کردار جو حقیقت سے بہت دور ہوں اسکو ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
جب بندہ فارغ ہو تو اسکے ذہن میں بڑے فضول قسم کے سوالات آتے ہیں۔ ابھی میں اس چیز پر سوچ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر کچھ سیاستدانوں کا انٹرویو سن کر ایک نیا سوال ذہن میں آیا کہ اگر یہ سیاست کے بجائے ٹی وی میں اداکاری کرتے تو زیادہ کامیاب ہوتے ۔ بلکہ موجودہ بڑے بڑے سٹار تو پیچھے رہ جاتے انکے مقابلے میں ۔ مجھے اس بات پر بڑا افسوس ہوا کہ ہم اپنے ٹیلنٹ کو اسطرح سے برباد کر رہے ہیں۔ اب میں ان دو مسلوں کے حل کے لئے پاکستانی ٹاک شو دیکھنے لگا کہ وہاں پر معلومات ہوتی ہے شائد میرے سوال کا جواب وہاں مل جائے ۔ لیکن مجھے تو ٹاک شو بھی ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی سٹیج ڈرامہ چل رہا ہو ایک دوسرے پر جگتیں ماری جا رہی تھی معلومات کے بجائے عوام کو کنفویز کر رہے تھے۔الجھن اب مزید بڑھ گئی۔
اسی دوران ایک دوست کا فون آیا اسکو دل کا حال بتا دیا کہ اس وجہ سے پریشان ہوں ۔دوست نے کہا اس تمام مسائل کی وجہ عوام ہیں یعنی ہم خود ہیں ۔ہم ان سیاستدانوں کو ووٹ دیتے ہیں انکو آگے لے کر آتے ہیں ۔ ہم ایسے ڈرامے دیکتھے ہیں اور ایسے ٹاک شو کو دیکھ کر انکی ریٹنگ بڑھاتے ہیں ۔دوسرا ہمارا بڑا مسلہ یہ ہے کہ ھمارا قانونی نظام میں بڑے مسائل ہیں، پیچیدگیاں ہیں۔انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا،جس کی وجہ سے عوام میں خوف نہیں۔ دوست کی بات سن کر اور پریشانی کا شکار ہوا ۔ پریشانی کے حالت میں ٹی وی کھولا ۔ ٹی وی پر علما کا انٹرویو سنایا جا رہا تھا کہ کورونا وائرس کے باوجود مساجد ضرور کھلی گی لوگ نماز اور تراویح پڑھنے ضرور آئیں ۔ میں سوچ میں پڑھ گیا جہاں دنیا بھر میں تمام مذاہب کے عبادت خانے بند ہیں ہمارے اسلامی ممالک میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے تو ہم کیوں حفاظتی اقدامات اختیار نہیں کر رہے ۔ ابھی ایک مسئلے کو بھی سلجھایا نہیں کہ دوسرا تیسرا اور چوتھا مسئلہ آجاتا ہے ۔ پریشانی بڑھنی لگ گئی ۔ اگر عوام ، سیاستدان ، صحافی ، جج اور علما سب ہی اس طرح کر رہے ہیں تو کیسے ہمارا ملک چلے گا ؟
انہی سوچوں میں غرق تھا کہ ٹی وی پر خبر سنی کو ملی که فردوس عاشق اعوان کو ہٹا کر جنرل عاصم باجوہ کو معاون خصوصی برائے اطلاعات تعینات کیا گیا۔ میں سوچنے لگا کہ ہمارے ملک میں احتیار کن کے پاس ہے طاقت کن کے پاس ہے، فیصلے کون کرتے ہیں ان سیاستدانوں کو آگے کون لاتا ہے ۔ ملک کے اہم عھدوں پر ، اہم اداروں پر کن کے لوگ ہیں ۔ اصل حکومت تو یہ کر رہے ہیں تو پھر یہ سیاستدان کیوں کٹھ پتلی تماشا کر رہے ہیں ۔ آج نہ ہی حکومتی اقتدار والی پارٹی اپنے آئینی کردار ادا کر پا رہی ہے اور نہ اپوزیشن کی پارٹی اپنا آئینی کردار ادا کر رہی ہے ۔ تو ان حالات میں سیاستدان کب تک کٹھ پتلی تماشا جاری رکھیں گے اور کس قیمت پر ؟ بجائے کٹھ پتلی تماشا کے حکومت اصل طاقت کے حوالے کرنا چاہئے ۔ پہلے بھی تو یہی لوگ حکومت کر رہے ہیں , تو انکو سامنے ا کر سب کچھ کرنا چاہئے ۔ کیا ضروری ہے که کٹھ پتلی تماشا کیا جائے ؟
جب تک ملک میں یہ کٹھ پتلی تماشا جاری رہے گا ۔ یہ سب کچھ ہونگا جو ہم بگھت رہے ہیں ۔ یہ کہنا آسان ہے کہ پچھلے 72 سالوں سے فوج ہم پر حکمرانی کر رہی ہے ۔ لیکن کھبی سوچا ہے کہ کیوں ؟ اس کی وجہ یہ سیاستدان ہے یہ انکے لئے جگہ بناتے ہیں انکے لئے قانون بناتے ہیں ۔ انہیں اہم سویلین پوسٹوں پے تعینات کیا جاتا ہے ۔ایسے قوانین اور تعیناتی اداروں کے لیے نہیں، دینے اور لینے والے کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہے اور نہ ہی ان میں آزادنہ فیصلے کرنے کی صلاحیت، ورنہ آج جو ملک میں ہو رہا ہے اس پر کم از کم اپوزیشن کی جماعتیں ضرور آواز اٹھاتی ۔ لیڈرز ظلم، جبر اور عدم مساوات کے خلاف مزاحمت کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں۔