ماریہ زیب اعوان
ہم تو دنیا کی محبت اور رعنائیوں کو دنیا تک پہنچانے والے لوگ ہیں میری کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم پولیٹکل ایشوز پر اور حالات حاضرہ پر بات کروں۔مگر کبھی کبھار حالات گھمبیر اور مسائل اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ ان پر لکھنے یا بات کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا اور یقینًا یہ ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے کہ آپ اپنے ملک کے اداروں پر تنقید کریں، مشکل حالات میں انکے خلاف قلم اٹھانا بھی ایک محب وطن کے لیے تکلیف دہ ہے۔
لیکن انکی حد درجہ نادانیاں اور ہٹ دھرمیاں آپکو مجبور کر دیتی ہے کہ آپ اپنا قلم انکے خلاف اٹھائیں،
اور سوشل میڈیا پر انکے خلاف اپنی آواز بلند کریں تا کہ آپ کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکے آواز بلند کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ یہ امید ہے کہ شاید اداروں کے مخصوص رویوں میں تبدیلی آئے گی اور آنے والے وقتوں میں یہ اپنی پالیسیز میں مثبت تبدیلیاں لائیں گے ۔۔
ابھی موجودہ جو صورتحال بنی ہوئی ہے کرونا وباء کیوجہ سے پاکستان میں یقینا یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے اور کوئی بھی اس قدرتی آفت کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھا اس وباء نے پوری دنیا سمیت پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس وباء کی جو تاریخ پاکستان میں موجود ہے وہ بلوچستان سے شروع ہوتی ہے،تفتان بارڈر سے ہمارے شیعہ زائرین آتے ہیں جس طرح انکو مس ہینڈل کیا جاتا ہے وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اور پھر یہ وائرس پورے پاکستان میں پھیل جاتا ہے،
یعنی یہ بات تو یہاں تک کلئیر ہو جاتی ہے کہ سارا مسئلہ بلوچستان سے شروع ہوتا ہے اور بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا وسائل والا صوبہ ہے اور یہ وسائل کس کے قبضے میں ہیں یہ بھی ہمیں پتہ ہے۔رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ سمندر، تیل، معدنیات، گیس سے مالا مال ہے.
پاکستان میں جب کبھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت کا دیگر صوبوں کے ساتھ رویہ ایک طرف اور صرف بلوچستان کے ساتھ جو تکلیف دہ رویہ ہوتا ہے وہ ایک طرف ہوتا ھے۔جس طرح بلوچستان میں اس مسئلے کو مس ہینڈل کیا گیا یہ یقینًا قابل مذمت بات ہے،ازالہ کرنے کے بجائے وفاق اور صوبائی حکومتیں جن گھٹیا ہتھکنڈوں پر اتر آئی وہ اس سے بھی بڑی شرمندگی کی بات ہے۔
پیرا میڈیکل اسٹاف ،سپورٹنگ اسٹاف جو کہ اسپتالوں کیساتھ منسلک ہوتے ہیں، ایمبولینس کے ڈرائیورز حضرات، سینیٹیشن اسٹاف، صفائی ستھرائی والے ،نرسنگ اسٹاف ان سب کیساتھ نیز تمام ہی طبی عملہ مشکل ترین حالات میں کورونا کے خلاف جہاد کر رہے ہیں مگر صوبائی حکومت کا انکے ساتھ رویہ دیکھنے لائق تھا۔چند روز قبل ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ہڑتال ہر چلے گئے جبکہ وہ پُر امن احتجاج کر رہے تھے ۔جس میں انکے تمام تر مطالبات انتہائی درست جائز اور حقیوت ہر مبنی تھے۔انکا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ موجودہ حکومت ہمیں کورونا وائرس سے لڑنے کے لیئے حفاظتی کٹ فراہم کرے،کرونا سے لڑنے کے لیئے ماسک دئیے جائیں، ہمیں کورونا سے لڑنے کے لیے دستانے چاھیے۔
اب عجیب سی صورتحال یہاں یہ بنتی ہے کہ جہاں جو ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں وہ پیرا میڈیکل اسٹاف اسپتال کا عملہ جو کرونا کے خلاف جہاد عظیم کر رہا ہے انکے پاس ماسک تک کی رسائی نہیں انکے پاس بنیادی ضروری سہولتوں کا فقدان تھا ان حالات میں کرنا یہ تھا کہ وفاق اور صوبائی حکومت اس معاملے کی اعلی سطحی انکوائری کرواتی، ان ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو ضروری سامان مہیا کرتی۔ لیکن ہوتا اسکے برعکس ہے۔ صوبائی پولیس ڈاکٹرز پر لشکر کشی کرتی ہے بلوچستان حکومت بلوچستان کی پولیس ان پر حملہ آور ہو جاتی ہے ان پر برے طریقے سے تشدد کرتی ہے انہیں جیلوں میں ڈال دیتی ہے۔
جیسے یہ کوئی دہشت گرد ہوں یا کوئی غنڈے ہوں۔۔
ایسی صورتحال کو دیکھ کر واقعی یہ لگتا ہے کہ پاکستان ایک بنانا ریپبلک ہے لیکن یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی،بلوچستان می عوام میں یہ بات یہ تاثر عام ہے کہ وہاں پر حکومت کس کی ہے وہاں پر احتیار کس کا ہےان باتوں کیساتھ ساتھ جو باتیں درد دیتی ہیں کہ;
دل کے پاپولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آختر مینگل جان جو صوبائی حکومت کا حصہ ہے وہ جو اپنے آپکو قائد انقلاب سمجھتے ہیں ہمیں تو گلہ ہے ان سے کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ ظلم ہو رہا ہے اور آپ خاموش ہیں اس پر اور اب آپ خاموش ہیں تو تاریخ اس پر آپکو معاف نہیں کریگے .
ہمیں تو گلہ ہے اصغر خان آچکزئی سے اور عوامی نیشنل پارٹی سے۔ہے جوکہ ہمیشہ اصولوں کی سیاست کرتی ہےاور جس پارٹی نے ہمیشہ اقتدار کو لات ماری ہے اپنے اصولوں کے خاطر اور وہ پارٹی جو ایک مضبوط سیاسی تاریخ رکھتی ہے اس معاملے پر انکی اور اضغر خان آچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ میں عوامی نشینل پارٹی کے دوستوں اور عوامی نشینل بلوچستان کے ساتھیوں سے کہونگی کہ تاریخ آپکو معاف نہی کریگی ۔آپ اسوقت کس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔آپ ظالموں کیساتھ کھڑے ہیں یا مظلوموں کساتھ کھڑے ہیں۔ اضغر خان آچکزئی کو اس بات کا جواب دینا ہو گا۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو ایک بیان دیکر اپنے آپکو بری ذمہ قرار دیتے ہیں۔ نہی بلاول صاحب آپکی ذمے داری یہ نہی ہے ۔۔کہ آپکی ایک بیان سے جان بخشی ہو جائیگی ۔آپکو اس معاملے کو اٹھانا ہوگاکہ سند ھ گورنمنٹ نے کمزور صوبے بلوچستان کو کیا مدد فرائم کی۔ آپ نے اس مسئلے کو سیریس کیوں نہیں لیا اور ایک بیان سے یہ بات یہاں رک نہی جاتی ۔ اسکے لیئے آپکو باقاعدہ طور پر سینٹ اور قومی اسمبلی میں اسکے خلاف قرارد لیکر آنی ہونگی اور اس معاملے کی اعلی سطح جوڈیشل انکوائری کروانی ہوگی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کب تک بلوچستان پر ان نا دیدہ قوتوں کا قبضہ رہیگا ؟کب بلوچستان میں عوامی گورنمنٹ آئیگی ؟ کب بلوچستان کے لوگ اپنے آپکو بااختیار محسوس کرینگے؟ کب تک یہ بلوچستان جو ہے کینٹ کے قبضے میں رئیگا ۔یہ چیزیں اب ناقابل قبول ہونگی۔
ان اندھیروں کا جگر چیر کر نور آئیگا
تم ہوں فرعون تو موسی بھی ضرور آئیگا
یہ جو نادیدہ قوتیں ہیں انکو بھی میں انتباہ کرنا چاھتی ہوں کہ خدا کے لیے آپ لوگ بس کر دو آپ بہت آگے بڑھ گئے ہوں اب آپ انسانی زندگیوں سے کھیلنے لگے ہوں آپ عوامی مفادات کے بچائے اپنے مفادات کو ترجیح دے رہے ہوں اور یہ عمل خطرناک ہے۔
میں آخر میں تمام ڈاکٹرز، پیرا میڈک ،نرسز جتنے بھی اسپتال ہیلتھ سے رئلیڈٹ ٹیکنیکل اور نان ٹیکنیکل لوگ ہیں انکو یہ بتانا چاھتی ہوں کہ ہم۔ آپکے ساتاھ کھڑے ہیں ہم۔ آپکی آواز بنے گے کوئی آپکے ساتھ زیادتی نہی کر سکتا اور گورنمنٹ کو یہ وارننگ دینا چاھتی ہوں خبردار کرنا چاھتی ہوں کہ ہمیں احتجاج کے لیئے مجبور نہ کریں ایسا نہ ہوں کہ پورے پاکستان میں ایک احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے۔
میری نظر سوشل میڈیا پر ایک بیان ایدریس پشتین پر پڑھی پختون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کے قریبی ساتھی بھی ہیں ایک بچگانہ بیان دیا ہے انہوں نےجسمیں وہ ڈاکٹرز کی بات کر رہے ہیں اس ڈاکٹر کا تعلق ہمارے گروپ ہماری تحریک سے ہے۔ اسکو چھوڑ دیا جائے یہاں پر ڈاکٹرز اور پورے پیرا میڈک کی بات کرنے کے بجائے یہ کہنا یعنی ایک ڈاکٹر کو چھوڑ دیا جائے یہ کس قسم کی ذہینت ہے کس قسم کی انسانیت ہے آپ نے انسانیت ،ڈاکٹرز، پیرا میڈک اسٹاف کے بجائے صرف اپنے ساتھی یعنی کہ ہر بندہ یہ چاھتا ہے یہاں کہ میرے ساتھی کو چھوڑ دیا جائے اور باقیوں کو رگڑا دے دو یہ کوئی طریقہ ہے یہ کوئی انسانیت ہے ہم کس قسم کی انسانیت پر آگئے ہیں ہمارے نظریات کا لیول یہ ہے۔
یہ وہ بنیادی روئیے ہیں جو معاشرے میں تشدد کو پھیلا رہے ہیں یہ وہ روئیے ہیں جو ہمارا چہرہ سامنے لا رہے ہیں میرے خیال میں پی ٹی ایم۔ کے سربراہ منظور پشتین کو اس بات کی وضاحت دینی ہو گی کہ انسانی المیہ کے دوران ایسے بچگانہ بیان کی کیا ضرورت پڑھ گئی؟ آپکا بیان تو یہ ہونا چاھیے ۔ کہ تما پیرا میڈک اسٹاف کو چھوڑ دیا جائے تمام کیساتھ عزت سے پیش آیا جائے اور ڈاکٹرز کو بنیادی چیزیں فراہم کی جائیں۔ فوری طور پر ڈاکٹرز کو رہا کیا جائے فوری طور پر ان سے معافی مانگی جائےانکو پروٹکشن کٹ مہیا کیا جائےاور اس کرونا کے مسئلے کو سنجیدہ لیا جائے اس پر سیاست نہ کی جائے۔
یہ کیا بات ہوئی پنجاب اور سندھ میں لوگ رہتے ہیں تو کیا بلوچستان کی عوام بھیڑ بکریاں ہیں کہ انکے لوگوں اور بلوچستان کے ڈاکٹرز کے لیئے پرو ٹکشن کٹز ہی نہ ہوں یہ صوبائی تعصب وسائل کی چھینا چھپٹی کا یہ دور ختم ہونا چاھیے ختم ہونا چاھیے۔