قبائلی اضلاع:کان کنوں سے پیسوں کی عوض غیر قانونی مشقت

DSC_4787-1-scaled-e1587191705443.jpg

اسلام گل آفریدی

خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی اور پسماندہ ضلع شانگلہ کے نیک محمد کا لاش تقریباً 5مہینے بعد کوئلے کے کان سے نکالاگیا ہے۔پاکستان کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے مزدورں کے ساتھ ہونے والے حادثات میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا، لا ش تک رسائی کا عمل انتہائی مشکل اور تکلیف دہ تھا۔

نیک محمد کے چھوٹے بھائی معراج خان جو پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سوشل میڈیا ٹیم کا ممبر اور ضلع شانگلہ کے صدرہے نے واقعے کے بارے میں بتایا کہ اتور 10نومبر کو وہ گاؤں میں تھاکہ صبح نو بجے اطلاع ملی کہ نیک محمد کان میں کام کے دوارن پھنس چکا ہے تو وہ اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچا تو مقامی مزدوروں کے علاوہ ریسکیوکا عملہ بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھا لیکن حکومتی اداروں کے پاس تربیت یافتہ عملے کی کمی اور حادثے کے دوران استعمال ہونے والے حفاظتی آلات اس کے قابل نہیں تھے کہ وہ کئی سو فٹ کان کے اندر کا م آسکے جس کی وجہ سے نیک محمد کے زندہ ہونے کے تمام اُمیدیں دم توڑ چکے تھے۔

40 دن تک کان مالکان اور حکومتی اداروں نے نیک محمد اور دوسرے مزدوروں کے لاشیں نکالنے میں مشینری اور کھانے پینے کے اشیاء مہیاکرنے میں تو مدد فراہم کیں لیکن محکمہ معدنیات نے مزید امدادی سرگرمیا ں جاری رکھنامزید انسانی ضیاع قرار دیکر کام بند کرنے کاحکم جاری کیا لیکن معراج اور نیک محمد کے دو بیویوں اور نو بچوں کے اسرار پراپنے مدد آپ کے تحت تقریبا850میٹر گہرائی سے اُن کے لاش کو نکالا گیا۔

کان کنوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیم پاکستان مائنز ورکرزفیڈریشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری سرزمین افغان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا ہ کے قبائلی اضلاع،باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، شمالی وزیر ستان اور درہ آدم خیل میں ایک لاکھ سے زائد مزدور کوئلہ، ماربل،کرومائٹ اور دوسری قیمتی معدنیات کے نکالنے میں برسر روزگار ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے کان کے مالک اور ٹھیکیدار مزدوروں سے غیر قانونی کان کنی کرکے کافی پیسے کمالیتا ہے لیکن دوسری طر ف انسانی جانوں کے ضائع کے شکل میں غریب مزدروں کا بہت بڑا نقصان ہوجاتاہے۔سرزمین افغان نے نیک محمد کے واقعے کے بارے میں بتایا کہ کالاخیل کا 41نمبر کان کا سائز چھ فٹ چھوڑا اور چھ فٹ اونچا جو قانونی سائز ہے اس سے بہت کم تھا جبکہ نوے کے بجائے پچاس ڈگری پر کان کھودا گیا تھا جس میں امدادی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والے آلات اور لوگوں کا باآسانی کان میں آنا جانا انتہائی مشکل اور دشوار تھا۔

مئی 2018میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے پہلے معدنیا ت سے جڑے ہوئے مسائل کی ذمہ دار ادارہ فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی اے)تھی جبکہ موجودہ وقت میں اس کو صوبائی محکمہ معدنیات کے ساتھ شامل کر دیا ہے۔ایف ڈی اے کے اعدادو شمار کے مطابق خیبر، مہمند اور باجوڑ میں دو ہزار سے زیادہ ایسے مقامات ہیں جہاں سے ماربل نکالا جاتا ہے،لیکن ادارے کے پاس وہاں پر کا م کرنے والے مزدوروں کے صحیح اعدادو شمار موجود نہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ تیس ہزار سے زیادہ مزدور کانوں سے مار بل نکالنے اور کارخانوں میں کام کررہے ہیں۔

کان کنی میں مصروف مزدور اور ٹھیکیدار اس خوف کی وجہ سے میڈیا کے بندوں کے ساتھ درپیش مسائل پر بات نہیں کرتے کہ اگر وہ ایسا کرتاہے تو اُن کو کام سے فارغ کرکے بے روزگار کر دیا جائیگا۔ شناخت ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بعض کان کنوں نے بتایاکہ کوئلہ نکالنے کے کام کے لئے ابتدا ء میں ٹھیکیدار مالک سے لاکھوں روپے ایڈوانس لیکر گاؤں میں زمین یا کاروبار میں خرچ کرلیتے ہیں جبکہ چھ بائی چھ سرنگ کے کھودائی کے لئے دوہزار روپے فٹ مزدوری وصول تو کرتا ہے لیکن کا م کر نے والے مزدوروں کو پندرہ سے اٹھارہ روپے فٹ کے حساب سے دیاجاتاہے جس میں تمام اخرجات بھی اُن کو خود کرنے ہوتے ہیں جبکہ معاہدے کے تحت حفاظتی سامان مالک کو مہیاکرنا ہوتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔

کان کنوں نے بتایا کہ ان تمام مسائل کی وجہ سے مزدور ٹھیکیدار کے مرضی سے کان کا سائز کم کردیتاہے اور کوشش ہوتی ہے کہ جلد از جلد کوئلہ نکالنا شروع ہوجائے۔اُن کاکہنا ہے کہ جب کھودائی کا کام مکمل ہوجاتاہے تو ٹھیکیدار مالک سے دوسرا معاہدہ کرلیتا ہے جس میں فی ٹن دوہزاروپے دینا ہوتا ہے لیکن پھر بھی مزدور کو پندرہ سو یا سولہ سو روپے ٹن ملتا ہے جس میں ٹھیکیدار کے ذمے تمام اخراجات دینے ہوتے ہیں۔

ایف ڈی اے کے مطابق قبائلی اضلاع سے روزانہ ساڑھے چار ہزار ٹن کوئلہ نکالاجاتا ہے جبکہ ایک ٹن آٹھ سے پندرہ ہزار تک فروخت کیاجاتاہے۔ ادارے کے مطابق صو بے میں قائم صنعتوں کو چلانے کے لئے اعلی معیار اور کم قیمت پر کوئلہ یہاں سے بھیجاجاتاہے جبکہ صوبے میں کا م کرنے والے سیمنٹ کے آٹھ بڑے یونٹس کے علاوہ دوسرے چھوٹے کارخانوں کے ضروریات بھی یہاں سے پوراکیا جاتاہے۔

معراج کاکہناہے کہ نیک محمد کے نو چھوٹے بچے اور دوبیویاں ہے جس کے کفالت کا کوئی ذریعہ نہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ اب تک حکومت کے جانب سے متاثر خاندان کی کوئی مالی معاونت نہیں کیاگیا اور نہ اُن کے بچوں کے پڑھائی کے لئے کوئی بندوبست ہو ا ہے۔اُن کے بقول وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ہ نے دس لاکھ روپے اور بچوں کو مفت تعلیم دینے کا وعدہ کیا تھا۔

نوراللہ یوسفزئی درہ آدم خیل میں کان کنوں کے تنظیم کے جنرل سیکرٹری اور پاکستان منرل ورکر فیڈریشن کے نائب صدر ہے۔ ان کے مطابق پہاڑ میں کوئلے کے لئے کٹائی دو ہزار روپے فٹ مزدوری ٹھیکیدار کو دیا جاتاہے اور قانوناً چھ فٹ چھوڑ اور چھ فٹ اونچا سرنگ کوئلہ نکالنے کے لئے بنانا ہوتا ہے اور کام کے دوران آکسیجن کے ترسیل اور ہنگامی صورتحال میں مدد پہنچانے کے لئے دوسرا سرنگ جس کو ہوائی کہتے ہے بھی بنانا لازمی ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کان کے مالک سے لیکر ٹھیکیدار اور مزدور تک کم وقت میں زیادہ کمائی کے لالچ پر کام کو چلاتا ہے جس کے وجہ سے بڑے حادثات رونما ہو تے ہیں اور مزدوروں کے ہلاکت کے شکل میں نتائج سامنے آجاتے ہیں۔

اُنہوں نے بتایاکہ کوئلے کے جلد آمدنی شروع ہونے کے لئے عام طورپر صرف ایک ہی سرنگ کھود ا جاتا ہے جبکہ سائز کو چھ بائی چھ سے کم رکھا جاتا ہے اور باہر کے سطح سے نوے درجے کے بجائے پچاس یا تیس درجے پر بناکر اُس میں عام حالات میں ایک انسان کا اندر داخل ہونا بھی ممکن نہیں۔یوسفزئی نے بتایاکہ کان میں وقت کے ساتھ ٹھیکیداراور مزدور تبدیل ہوتا رہتاہے جبکہ کان کا نقشہ کسی مالک کے پاس نہیں ہوتا جس سے تمام خطرات اور محفوظ کام کے حوالے سے آسانی کے ساتھ معلومات حا صل نہیں کیاجاسکتاہے۔اُنہوں نے بتایاکہ مالک تب نقشہ تیار کرلیتا ہے جب قریب کے دوسری کان مالک کے ساتھ حدبندی پر تنازعہ کھڑا ہو جاتاہے۔

اپریل 2018میں سپریم کورٹ نے باقاعدہ چاروں صوبوں کو یہ حکم جاری کیا تھا کہ کان کنی میں مصروف تمام افراد کے اعدادو شمار کو اکٹھاکیا جائے اور کام کے دوران مرنے والے مزدوروں کے لواحقین کو سرکار کی جانب سے پا نچ لاکھ روپے نقد دینے ا ور بچوں کے تعلیم وتربیت کا انتظام کیاجائے۔ اس عد التی حکم کے باوجود بھی کسی بھی صوبائی حکومت نے اس حوالے سے صحیح اعدادو شمار اکٹھے نہیں کئے البتہ اپنے مددآ پ کے تحت کان کنوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیموں نے نہ صرف مزدوروں کے اعدادو شمار اکٹھے کی بلکہ اُن کو درپیش مسائل کے حل کے بھی کوشش کررہے ہیں۔ انضما م سے پہلے قبائلی علاقوں میں لیبر قوانین کی توسیع نہیں تھی لیکن تقریبا ًدوسال کہ عرصہ گزر جانے کے باجود بھی علاقے میں کان کنوں کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات نہیں اُٹھائے گئے۔

پاکستان مائنز ورکرزفیڈریشن کے اعدادو شمار کے مطابق قبائلی اضلاع میں 15اپریل 2004سے اپریل2018تک مختلف واقعات میں 150سے زیادہ کان کن جان سے ہاتھ دوبیٹھے ہیں جبکہ سینکڑوں کے تعداد میں عمر بھر کے لئے معذورہو چکے ہیں۔ تنظیم کے مطابق پاکستان بھر میں کان کنوں کے مسائل موجود ہے لیکن قبائلی اضلاع میں حالات انتہائی پیچید ہ اور تشویش ناک ہے کیونکہ کان کے مالک، ٹھیکیدار اور مزدور چند پیسوں کے خاطرموت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ حکومت کے جانب سے معدنیات نکالنے اور لیز کے حصول سمیت کان کنوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

قبائلی اضلاع سے نکلنے والے معدنیات پر ضلعی انتظامیہ، ایف ڈی اے یا محکمہ معدنیات، ضلعی ٹیکس اور دیگر سیکورٹی اداروں کو ٹیکس ادا کیاجاتاہے تاہم اس حوالے سے صرف ا یف ڈی اے کے سابق عہدیداران نے بتایاکہ چھ مہینوں میں رائیلٹی کے مدمیں سرکاری خزانے کو پچیس کروڑ روپے جمع کئے جاتے تھے جبکہ ٹن کے حساب سے بیس سے تیس روپے سرکاری ریٹ مقرر تھا۔ عہدیدار کے مطابق چند ایک مقام پر سڑک کے تعمیر اور چند مزدوروں کو حفاظتی سامان مہیاکرنے کے علاوہ خاطر خوا ہ اقدامات نہیں کی گئی۔ ادارے کے مطابق درہ آدم خیل، ہنگو اور اورکزئی میں ایمرجنسی مراکز قائم جہاں پرحادثے کے صورت میں امدادی سرگرمیوں میں استعمال ہونے والے محدود آلات بھی مہیاکئے گئے ہیں تاہم ادارے نے اس بات کی تصدیق کردی کہ مائن انسپکٹرز کے تعداد انتہائی کم ہونے کے وجہ سے محفوظ کان کنی کو یقینی بنانا ممکن نہیں تھا جس کی وجہ سے اکثر خطرناک واقعات رونما ہونے اور امدادی سرگرمیاں ختم ہونے کے بعد کان کو سیل کرکے مالک کو جرمانہ کرکے دوبارہ کام شروع کر نے کی اجازت دیا جاتا تھا۔

مقامی صحافی اور سماجی کارکن افسرالملک افغان نے بتایا کہ ساڑھے سات لاکھ آبادی پر مشتمل خیبر پختونخوا ہ کے دورافتادہ اور پسماندہ ضلع شانگلہ کے ستر سے اسی فیصد لوگ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا ہ میں کان کنی کے شعبے میں کا م کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ علاقے میں تعلیمی سہولیات اور معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے اکثر نوجوان کوئلے کے کانوں میں مزدوری کے لئے جاتے ہیں جو کافی خطرناک کام ہے لیکن گاؤں کے لوگ جب کان کنی میں مصروف دوسرے لوگوں کے کم وقت میں زیادہ کمائی کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے بچے اور گھر کے دوسرے افراد بھی کانوں میں کام کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ان کے مطابق ا ور یا عمر بھر کے لئے معذور ہوجاتے ہیں۔ حادثے میں مرنے والے مزدوروں کے لواحقین کو چار سے آٹھ لاکھ تک معاوضہ مل جاتا ہے جبکہ قبائلی اضلاع میں لیبر قوانین کے توسیع نہ ہونے کی وجہ سے متاثر افراد کے علاج معالجے اور خاندان کے مالی معاونت کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔

خیبر پختونخوا میں کہیں پر بھی کان کنوں کے علاج معالجے کے لئے سرکاری ہسپتال موجود نہیں جبکہ اب تک تمام واقعات میں مقامی مزدوروں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیاں سرانجام دی ہیں۔ مائن ریسکیو کے حکام نے قبائلی اضلاع میں حادثات کے صورت میں امدادی سرگرمیوں کے بارے میں بتایاکہ جہاں پر واقعات رونما ہوچکے ہیں تو امدادی ٹیمیں بروقت پہنچا ئے گئے ہیں تاہم غیر قانونی کان کنی کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں موثر ثابت نہیں ہو تے۔ معراج کا کہناہے کہ ہمیشہ حادثے کے صورت میں امدادی ٹیمیں ایک تو وقت پر پہنچ نہیں پاتے اور دوسرے طرف غیر تجربہ کار عملے کی و جہ سے علاقے کے مزدور اپنی مدد آپ کے تحت ملبے سے لوگوں کے نکالنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ اُن کے بقول نیک محمد کو اپنی مدد آپ کے تحت نکالا گیا لیکن صوبائی حکومت کے محکمہ معدنیات اور ریسکیووالوں نے سوشل میڈیا پروڈیو چلا کر یہ دکھانے کی کوشش کیاہے کہ یہ سارا آپر یشن انہوں نے ہی کیا ہے جوکہ بالکل بے بنیاد ہے۔

عبدالواحد ہیلتھ ٹیکنیشن ہے جو کہ کالا خیل میں چند کان مالکان کے جانب سے اُن کو تنخواہ دیکر وہ مزدوروں کوطبی خدمات دینے کے لئے ہفتے میں دو دن کے لئے آتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ حادثے کے صورت میں فوری معمولی طبی امدا د متاثرافراد کو مہیا کیاجاتا ہے تاہم مزید علاج کے لئے پشاور یا کوہاٹ کے ہسپتالوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ایک طرف اُن علاقوں میں جہاں معدنیات نکالنے کے سرگرمیاں ہوتے ہیں کوئی سرکاری طبی مرکز موجود نہیں تو دوسرے جانب مزدور بھی کھانے پینے اورکام کے دوران صفائی کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتے۔ اُن کا کہنا تھاکہ کام کے دوران ماسک اور حفاظتی ہیلمٹ کابھی استعمال نہ کرنے کے وجہ سے سر پر خطرناک زخم لگنے اور کان کے اندرآکسیجن کی کمی کی وجہ سے اکثر مزدور پھیپڑوں کے امراض میں مبتلاہوکر عمر بھر کے لئے بستر پر لیٹ جاتے ہیں جبکہ بعض مزدوروں کو گرد وغبار سے الرجی ہونے کی وجہ سے سانس کے پیچید ہ امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

اگر ایک طرف قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے کان کن کے کام کے دوران کئی مشکلات کاشکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان علاقوں میں پچھلے کئی سالوں سے خراب امن وامان کے صورتحال، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے شدید لہر سے نہ صرف درہ آدم خیل، خیبر،اورکزئی، مہمند، باجوڑ، شمالی وزیر ستان اور دیگر علاقوں میں کئی سالوں تک معدنیات نکالنے کے کام کو مکمل طورپر بند کردیا گیا تھا بلکہ ضلع خیبر کے علاقے کالاخیل ہی سے شدت پسندوں نے 29ستمبر 2011ء کو تیس کان کنوں سمیت علاقے میں سڑک کے تعمیر میں مصروف دوسرے کئی مزدوروں کو اغواء کرایاتھا۔

اغواء شدہ افراد میں محمدافسر جس کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے ہے اور خود کوئلے کے کان میں لفٹ آپرٹیر ہے کے بھائی جاوید افسربھی شامل تھا اُن کا کہنا ہے کہ طالبان نے تما م اغو ا افراد کو ایف آر کوہاٹ کے علاقے ترکیان منتقل کردئیے تھے جبکہ تین مہینے کے بعد سولہ مزدور فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ باقی افراد کے راشتہ دار وں نے اپنے پیاروں کے واپس آنے کے طویل انتظار کیا لیکن کئی سال گزر جانے بعد جب امن کے صورتحال قدرے بہتر ہوئی تو پتہ چلا کہ تمام افراد ایک فضائی کاروائی میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ مرنے والے تمام افراد کا تعلق ضلع شانگلہ سے تھا اورا ن مالکان نے متاثر خاندانوں کی مالی معاونت کے مد میں صرف64 لاکھ روپے ادا کردئیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top