اسلام گل آفریدی
خیبر کے علاقے تیراہ میں دو بچوں کے گمشدگی اور بعد میں لاشیں ملنے کے بعد علاقے میں مقامی آبادی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں واقع میں ملوث مشتبہ ملزمان کے تین گھروں پر لشکر کشی کرکے مسمار کیا گیا۔ لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کے فائرنگ سے ایک مقامی نوجوان جان بحق ہوا اور واقعے کے بعد دونوں بچوں اور نوجوان کی لاشوں کو سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کیا گیا۔ مزکراتی کمیٹی کے کوششوں سے مسائل کے حل کے یقین دہانی پر میتوں کے تدفین کا عمل مکمل ہوا۔
9/11 کے بعد پوری قبائلی پٹی شدید دہشت گردی اور انتہاپسندی کے لہر نے بری طرح کچل دیا اور پہلے فرصت میں قبائلی عمائدین کو حدف بنا کر نشانہ بنائے گئے جن میں تقریباً 15 سو تک مشران کو مختلف واقعات میں اپنے جان سے ہاتھ دوبیٹھے۔کچھ کو اغوا کرکے اس شرط پر رہا کردئیے گئے کہ وہ خاموش رہینگے،بعض نے اپنے آبائی علاقے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر پاکستان کے دوسرے شہروں میں رہائش پزیر ہوگئے لیکن اس کے باوجود بھی کئی ایک کو پشاور، اسلام آباد،کراچی اور لاہور میں بھی نشانہ بنا کر قتل کردئیے گئے۔
چونکہ یہ دورانیہ قبائلی علاقوں کے لئے انتہائی بھاری رہا۔ حکومتی نظام چلانے کے لئے 1901 سے رائج ایف سی آر (فرنٹئر کرائم ریگولیشن) کے تحت چلایا جاتا رہا اور اُس کالے قانون میں متعدد کو تاہیوں پر ملکی اوربین الاقوامی سطح پر کافی اعتراضات کے اُٹھائے جانے کے بعد پاکستان کے ستر سالہ تاریخ میں پہلی بار مئی 2018 میں قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں اس بنیاد پر ضم کردئیے گئے کہ وہاں پر مقامی آبادی کے کئی دہائیوں پر محیط محرومیوں کو دور کیا جائیگا لیکن تقریباً دو سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی زمینی حقائق پر بالکل مختلف ہے اور انضمام کے مخالفین کے رائے کوتقویت مل رہا ہے۔
وادی تیراہ میں گمشدہ بچوں کے بازیابی کے لئے مقامی پولیس اور سیکورٹی اداروں کے یقین دہانی کے باوجود بھی تقریباً تین ہفتے بعد گھر کے قریب ایک دینی مدرسے کے واش کے لئے بنائے گئے کٹر سے لاشیں مقامی افراد کے نشاندہی پر نکالے گئے جبکہ اصل ملزمان کو واقعے کے پہلے دن ہی گرفتار کرلیے گئے تھے۔ برآمدہوئے لاشوں کے اس واقعے پر مقامی آبادی میں شدید ٖغم وغصہ پایا گیا جو لشکر کشی کے شکل میں سامنے آیا اور تین مشتبہ ملزمان کے گھروں کو آگ لگا دی گئ۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز نے مداخلت کردی جس کے نتیجے میں ایک مقامی نوجوان مارا گیا اورکئی ایک زخمی ہوئے۔
اس واقعے کے چند ہی دن بعد تحصیل باڑہ کے دور افتادہ علاقے شاڈالو میں زمین کے تنازعے پر ایک بندے کے مارے جانے کے بعد ملزم کے خلاف لشکر کشی کی گئی اوراُن کا گھر مسمار کیا گیا جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے علاوہ مہمند اور باجوڑ کے مقامی آبادی کے سرحدی حدبندی، جنوبی اور شمالی وزیر ستان میں جائیداد کے تنازعوں پر لشکر وں کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جتنا قبائلی پشتونو ں کے تاریخ پرانی ہے اُتنا ہی نظام زندگی چلانے کے لئے واضح کردہ اصول اور راویات ہے، جن میں جرگہ اور لشکر کشی وہ عناصر ہیں جن کے بنیاد پر معاشرے میں انصاف اور کمزور طبقوں کے مدد کرنا ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف اوقات میں اس کے استعمال میں انسانی حقوق کے پامالی کے صورت میں استعمال کیاگیا ہے جس کی مثال قبائلی علاقوں میں رائج ایف سی آر کے شق چالیس میں اجتماعی ذمہ داری کے تحت اصل ملزم کے بجائے خاندان، قبیلے اور علاقے دوسرے لوگوں سزا دینا ہوتا تھا۔
اس انضما م کے ساتھ آئین اورقوانین کے توسیع کے فیصلے کے باوجود بھی قبائلی اضلاع کے عوام حکومتی اداروں کے کارکر دگی سے مطمین دکھائی نہیں دیتا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مسائل عدالتوں کے طویل اور پیچیدہ طریقہ کار کے بجائے اپنے مسائل کا حل روایاتی جرگوں کے وساطت سے حل کرنا چاہتے ہیں جو کہ انصاف کے لئے سست اور جلد انصاف کا راستہ تصور کرتے ہیں۔ دوسری جانب سے انضمام کے حامی اور حکومتی مشینری بھی بڑے مشکل میں دکھائی دیتا ہے جس کی بنیادی وجہ فنڈ کے عدم فراہمی، اداروں کی غیر مؤثر کارکردگی اور فیصلوں میں مقامی قیادت و نوجوانوں کو نظر اندازہ کرنا شامل ہیں۔
حکومتی اداروں کے موجودگی میں مقامی قبائل کا اپنے پرانے روایات کو سامنے لانا اور اُس کے تحت فیصلے کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ وہاں پر عام آدمی کو اپنے زندگی گزرنے کے لئے دیا گیا نظام موثر نہیں ہے۔