پشاور:پشتو ادب کی نمائندہ تنظیم پوھنتون ادبی ستوری (پاس) خیبرپختونخوا کی جانب سے پشتوشاعری کی کتاب ’’خاموشہ چغے‘‘کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیاگیا۔تقر یب کا انعقاد خانہ فرہنگ ایران پشاورمیں ہوا جس میں ضلع ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون شاعرہ اور ڈاکٹر روشن کلیم سرہندی کے شاعری مجموعہ ’’خاموشہ چغے‘‘یعنی’’ خاموش نعرے ‘‘کتاب کو پشتو ادب کے قارئین کیلئے پیش کیاگیا۔
تقریب کے مہمان خصوصی پشتو اکیڈمی کی سابقہ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سلمہ شاہین تھیں اس کے علاوہ دوسرے مہمان گرامی میں پشتو ادب کے چمکتے ستارے پروفیسر ڈاکٹر یارمحمدمغموم،پروفیسرڈاکٹر اباسین یوسفزئی کے ساتھ کثیر تعداد میں نوجوان شعراء اور پشاوریونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء وطالبات نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کے دوران مہمان خصوصی ڈاکٹر سلمہ شاہین نے کہا کہ ’’خاموشہ چغے‘‘پشتون معاشرے میں رہنے والے عورتوں کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے ، کتاب میں پشتون خواتین کے احساسات،جذبات اور خیالات کو قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کتاب میں اُن فرسودہ ذہنیت کو قلم کی زبا ن سے جواب دیا گیا ہے جو کہتے ہیں کہ عورت کمزور اور گھر کی لونڈی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ادب صرف مردوں کا نہیں ہے بلکہ خواتین کوبھی اس پر برابر کا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ قلم کے ذ ریعے اپنی درپیش مسائل اور حقوق کیلئے قانونی جنگ لڑیں۔
ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے کہا کہ ڈاکٹر روشن کلیم کی یہ کتاب پشتو ادب کیلئے ایک بہترین کاوش ہے جس میں خواتین کی زندگی کو زیر بحث بنایاگیا ہے اور ہمارے معاشرے میں عورتوں کے خلاف پائی جانے والے غلط پروپیگنڈے کو شاعری کے ذریعے کو جواب دینے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کا ادب کی طرف رحجان بڑھنا واقعی ایک قابل تحسین اقدام ہے جس سے پشتو ادب کو فروغ ملے گا اور عورتوں کے مسائل کو بھی بہتر طریقے سے لوگوں کے سامنے آئینگے۔
نوجوان شاعر اورتقریب کے آرگنائزر افسرالملک افغان نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ پوری دُنیا اور بالخصوص ہمارے پشتون معاشرے میں خواتین کو روز اول سے پسماندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے آدھی سے زیادہ آبادی جو کہ ہماری خواتین پر مشتمل ہے کو اپنے وطن کی ترقی سے دور رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خواتین بیک کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے جن میں مردانہ سوچ،مذہبی ،ثقافتی اور فرسودہ رسم ورواج کی محاذیں نمایاں ہے۔افسر افغان نے کہا کہ ان ساری تکالیف کے باوجود ایک عورت کا ادب کے ساتھ شوق اور شاعری مجموعہ کو مرتب کرنا ایک اچھا عمل ہے جس سے مرد غالب معاشرے کو یہ پیغام ملے گا کہ عورت بھی شاعری کرسکتی ہے اور اپنے احساسات اور جذبات کو معاشرے کے سامنے پیش کرسکتاہے۔
انہوں نے کہا کہ پشتو ادب میں اکثر عورت کو ایک جنسی شوپیس اور مفعول کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو کہ مردانہ سوچ کی عکاسی ہے ،لہذا ڈاکٹر روشن کلیم کی یہ کتاب ’’خاموشہ چغے‘‘میں اُن تمام موضوعات کو زیر بحث بنایا گیا ہے جو کہ خواتین کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
تقریب میں شریک نوجوان گلوکار اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پشتو کے ایم فل سکالر شوکت سواتی نے تقریب کے حوالے سے بتایاکہ عورت صرف گھر کی نوکرانی نہیں ہے بلکہ وہ بھی معاشرے کے قابل احترام لوگ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں خوشحالی اُسی وقت آتاہے کہ جب مرد اور خواتین دونوں مل کر ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرلیں۔
شوکت سواتی نے کہا کہ عورت بھی شاعری کرسکتی ہے اس کے علاوہ سیاست اور دوسرے شعبوں میں بھی اپنا کردار اداکرسکتی ہے لہذا ہمیں یہ سوچ بدلنا چاہیے کہ عورتوں کو صرف اور صرف گھر تک محدود رکھا جائے۔انہوں نے ڈاکٹر روشن کلیم کی کتاب کو پشتو ادب اور خواتین کی ترقی کیلئے بڑا اہم قرار دیا۔
تقریب کے آخر میں ڈاکٹر روشن کلیم سرہندی نے تمام نے والے مہمان گرامی اور شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ اداکیا اور کہا کہ ہماری خواتین بھی آئے ،ادب اور سیاست میں حصہ لیں اور وطن کی ترقی میں مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کریں ۔