اسلام گل آفریدی
پشاور:پاکستان سمیت پوری دنیا کے 196 ممالک عوام کو کرونا وائرس نے بڑی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے،جس کی وجہ اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ایسے حالات میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہوجاتا ہے کیونکہ لوگوں خبروں کے ذریعے حفاظتی تدابیر اپناتے ہیں۔پاکستان میں ایک طرف اگر سرکاری میڈیا عوام تک کرونا کے متعلق حکومتی اطلاعات پہنچا رہی ہے تو دوسری طرف سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر کچھ ایسے معلومات عام لوگوں تک پہنچایا جارہا ہے جس کی تصدیق ممکن نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی نظام موجود ہے جس سے ان غیر مصدقہ نیوز کی روک تھام کے لئے کچھ ہوسکے۔
فصیحہ شریف صحافی ہے اور پچھلے کئی سالوں سے ریڈیو کے ساتھ میزبان اور رپورٹر کے حیثیت سے کام کررہی ہے۔ اُن کے بقول شروع ہی سے پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کے رحجان بہت کم ہے جس کے وجہ سے لوگوں کو غیر مصدقہ اطلاعات پہنچائے جارہے ہیں، اس کے کافی منفی اثرات کے شکل میں نتائج سامنے آئے ہیں۔
اُن کے بقول کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال میں صحافیوں کے ذمہ داریوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے کیونکہ عام لوگ اُن کے معلومات پر یقین کرتا ہے اور اُس کے مطابق اپنا لائحہ عمل طے کرتا ہے لیکن موجودہ حالات میں کچھ صحافی ایسے معلومات بغیر تصدیق کے پھیلارہے ہیں جو خوف اور ذہنی پریشانی میں اضافے کا سبب بنا رہا ہے۔
پاکستان میں عام لوگوں کا معلومات تک رسائی کا سب سے آسان ذریعہ سماجی رابطے کی ویب سائیڈ فیس بک ہے جہاں بغیر کسی پابندی کے ہر ایک اپنے رائے اظہار کرتا ہے۔کرونا کے حوالے سے بھی لوگ گھریلو ٹوٹکوں کے استعمال، وڈیوز، تصاویر اور اس قسم کے غیرمصدقہ معلومات شیئر کرتے ہیں۔
آیاز آفریدی نے اپنے فیس بک پر لوگوں سے درخواست کیا ہے ایسے معلومات نہ پھیلائیں جس کے وجہ سے لوگوں میں خوف پھیل جائے۔
صحافی افسر ملک افغان کاکہنا ہے کہ موجودہ وقت میں کرونا سے متاثر مریضوں کی تعداد پاکستان میں ساڑھے آٹھ سو زیادہ ہوگیا ہے تاہم مزکورہ مرض کے ماہر ین کی تعداد آپ کو سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں ملیں گے جوکہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے۔اُنہوں کہا کہ ایک ذمہ دار صحافی کے حیثیت اس مشکل صورتحال میں عوام کو خوف اور پریشانی سے نکا لنے کے لئے اپنا کرادار ادا کرناچاہئے اور کرونا کے وباء سے بچانے کے لئے صرف ماہرین اور حکومتی ذمہ دار لوگوں کے جانب سے اُٹھائے جانے والے اقدمات کے بارے میں معلومات لوگوں تک پہچائے جائیں۔
عامر کے نام سے فیس بک کے ایک صارف نے حکومت کو لاک ڈاون کو موثر بنانے کے حوالے مشورہ دیا ہے کہ شہری علاقوں میں باولے کتے اور شیروں کو چھوڑیا جائے جبکہ ایک اور صحافی نے لوگوں کو مختلف کھانے کے چیزوں سے پرہیز کا نسخہ تجویز کردیا ہے۔
سینئر صحافی اور پاکستان میں میڈیا کے آزادی کے لئے کام کرنے والے تنظیم میڈیا فریڈیم نیٹ ورک کے سرگرم رکن اقبال خٹک نے کرونا وباء میں صحافیوں کے کردار کو سراہا اور موقف اپنایا کہ اس وقت صحافی اور طبی عملے نے جان کو خطرے میں ڈال کر لوگوں کے زندگیاں بچانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہی قوم کے ہیروز ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اور خصوصاً خبیر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے مشکلات حالات جن میں دہشت گردی کے شدید لہر، زلزلہ، سیلاب اور اب کرونا جیسے وبائی صورتحال میں کام کررہی ہے لیکن ہنگامی صورتحال میں خبر کی تصدیق کرنا مشکل ہے لیکن غلط خبر وباء سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ بے غیر تصدیق کے سوشل میڈیا پر خبروں کوپھیلائے جانے کے بارے میں اُنہوں کہا کہ صحافی اور عوام کو خبر کے تصدیق کے لئے مختلف طریقے موجود ہے جس کو اپنانا انتہائی ضروری ہے۔
ڈاکٹر مدثر آفریدی ضلع خیبر کے ایک سرکاری ہسپتال میں میڈیکل آفسر کے حیثیت سے کام کررہا ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ موجودہ وقت میں کورونا وائرس ایک پیچیدہ اور غور طلب مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مین سٹریم میڈیا پر بھی طبی ماہرین کے بجائے غیر متعلقہ لوگ ہی اس مرض کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے لوگوں کو معلومات فراہم کررہے ہیں جوکہ نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ اُنہوں کہا کہ لوگ کسی ایسے بندے کے بات پر یقین نہ کریں جو اپنے شعبے کے ماہر نہ ہو۔
سوشل میڈیا پرکرونا کو ایک ڈرامہ پیش کرنے اور لوگوں کے زندگیاں خطر ے میں ڈالنے پر ایک نظم پیش کرنے پر کل ضلع بنوں میں تین افراد کو پولیس نے گرفتار کرلی ہیں جبکہ پشتو کے نجی ٹی وی کے سابق کارکن نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے عام لوگوں کے ایسی ہی انٹریو نشر کیں جس میں لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کیا گیا ہے کہ اصل میں کرونا وائرس کی کوئی وجود ہی نہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کے طرف سے شدید ردعمل آنے کے بعد اُنہوں نے وڈیو اپنے اکاؤنٹ سے ہٹادیا ہے۔
اقبال خٹک نے کہا کہ ہنگامی صورتحال میں سے پہلے صحافی کے حفاظتی اقدامات سے باخبر ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ موجودہ وقت میں کرونا پاکستان بھر کے عوام کے لئے خطرہ ہے۔اُنہوں تمام صحافیوں پر زور دیا کہ خبر لوگوں تک پہنچے سے پہلے متعلقہ اداروں یا افراد سے ضرور تصدیق کریں تاکہ عوام کے بھلائی کے بجائے نقصان کا سبب نہ بنے۔
ضلع خیبر کے تحصیل لنڈی کوتل رہائشی جو حال ہی میں لاہور کے میو ہسپتال میں معدے کے تکلیف کے باعث داخل تھا بغیر اطلاع کے گھر آیا جن کو آج صبح محکمہ صحت کے اہلکاروں نے مشتبہ کرونا مریض قرار دیکر پشاور منتقل کردیا جبکہ پوری علاقے کو قرانطین کردیا گیا۔ بعض مقامی صحافیوں نے ذرائع کے حوالے سے مریض کو کرونا سے متاثر قرار دیکر فیس بک پر پوسٹس شائع کی تاہم بعض نے موقف اپنایا کہ میڈیکل رپورٹ آنے تک انتظار کیاجائے۔کئی گھٹنے گزرجانے بعد حکام نے متعلقہ شخص کو کرونا سے پاک قرار دیا۔
فصیحہ شریف کا کہنا ہے کہ آفت کے صورتحال میں میڈیا کے ذمہ داری لوگوں کو بروقت اور مدد کے حصول کے لئے خبرپہنچا ہوتا ہے۔اُنہوں نے کہاکہ لوگوں کو احتیاط، بچاؤ اور سفر کے حوالے معلومات انتہائی اہم ہے کیونکہ ملک کی بڑی آبادی گھروں کے اندر ہے۔بعض صحافی حکومتی وزراء اور اداروں کے جانب سے بروقت معلومات فراہم نہ کرنے کی بھی شکایت کرتے ہیں جس کے وجہ وہ ادارے سے مجبور ہوکر غلط خبر نشر کردیتاہے۔