ماریہ زیب اعوان
جغرافیائی اعتبار سے پختون کئی مضبوط اور طاقتور تہذیبوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک طرف ہند کی وسیع تہذیب، دوسری طرف ایران کی، اور تیسری طرف چین کے منگولوں کی طاقت کے درمیان اپنی بقا کے لیے پختون ہمیشہ سے جنگ کی زد میں رہے ہیں۔ اوربہت کم ایسا ہوا کہ پختون کسی کے علاقے پر حملہ آور ہوا ہو، تاریخ میں یہ بہت کم ملتا ہے۔ لیکن یہ بات تاریخ میں بہت زیادہ ملتی ہے کہ پختونوں کے علاقوں پر بیرونی ممالک سے یا بیرونی اقوام کی طرف سے ہر دور میں حملے ہوتے رہیں ہیں۔ اس وجہ سے پختونوں میں جنگ کا عنصر لازمی پایا جاتا ہے اور اس بات پر وہ فخر کرتے ہیں۔ کہ ہم۔ اپنے وطن یا اپنی مٹی کی دفاع کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں۔
پختونوں کی روایتی موسیقی جیسے ٹپہ بولتے ہیں بنیادی طور پر ٹپہ جنگجووُں کی بہادری بیان کرتا ہے۔ جنگ اور تنازعات کے درمیان پختون تہذیب کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ تنازعات نمٹانے کا ایک منفرد قانون بھی بنتا چلا گیا جوکہ پختون تہذیب کو دنیا سے ممتاز کرتی ہے۔ عارضی جنگ بندی یا سیز فائر ہو یا جنگ کے درمیان خواتین بچوں اورکمزورں کو امن دینا یہ منفرد سماجی اقدار ہے جو کہ پختونوں نے دنیا کو دیے۔ اسی طرح تنازعات کے پر امن حل کے لیے بات چیت کا جو راستہ پختونوں نے اپنایا وہ انسانی تہذیب کے لیے پختونوں کا ایک لازاوال تحفہ ہے جس کو ”جرگہ“ کہتے ہیں۔
جرگہ ترکی لفظ جرگ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں دائرہ کیونکہ عام طور پر جرگہ کے لیے دائرے میں بیٹھا جاتا ہے، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سب کی برابری کا احساس ہو جرگہ فریقین کی باہمی رضا سے تنازع کا مستقل اور پر امن حل کا نام ہے۔ پختون سوسائٹی میں یا پختونوں کے سماج میں جرگہ کی مختلف اقسام ہیں جیسے کہ مرکہ، مرکہ جرگہ کی وہ قسم ہے جس میں خاندانوں کے درمیان ذاتی نوعیت کے مسائل حل کئیے جاتے ہوں۔ دوسری قسم جرگہ کی قومی جرگہ ہے۔
قومی جرگہ پختونوں کے درمیان سماجی مسائل کے اجتماعی حل کے لیے کیے جاتے ہیں۔ جس میں مختلف اقوام کے نمائندہ وفود شامل ہوتے ہیں۔ جرگہ کی تیسری قسم لویا جرگہ ہے جس میں عمومی طور پر بین الاقوامی معاملات کے تناظر میں پوری دنیا کے پختون شرکت کرتے ہیں۔ اور بیرونی مسائل کے حل کے لیے اور بیرونی دنیا جو خطرات پختونوں کو ہوتے ہیں اس کے حل کے لیے اور اپنے دفاع کے لیے سوچ وچار کا نام لویا جرگہ ہے۔ جرگہ پختون سماج میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
جو کہ ذات اور سماج کے لیے مسائل پر امن حل کے لیے روشنی کی ایک کرن ہے۔ جرگہ ہمیشہ تب بلایا جاتا ہے جب محسوس ہو کہ مسائل خطرناک حد تک گمبھیر ہو گئے ہیں۔ جرگہ کی افادیت تب بڑھ جاتی ہے جب سماج کا مضبوط گروہ یا سماج کی طاقتور قوم جرگہ بلائے یعنی اس کا مطلب یہ کہ حالات اس حد تک خراب ہیں کہ اب کسی ایک فرد، قوم، گروہ یا قبیلے کے بس کی بات نہی کہ وہ فیصلہ کرسکیں اب کیا کرنا ہو گا۔
موجودہ سیاسی حالات میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ نے پختون تحفظ موومنٹ کے مطالبے پر جرگہ بلایا ہے۔ جس کو پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، اور قومی وطن پارٹی، کی مکمل تائید حاصل ہے۔ یعنی پختونوں کی قومی شناخت کی بنیاد پر کام کرنے والی تمام سیاسی پارٹیاں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ پاکستان میں پختونوں کی قومی شناخت، سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات پر پختون قوم اور ریاست کے درمیان معاملات آئین کے مطابق نہیں چل رہے۔
سیاسی اور سماجی حالات میں پختون قیادت پر قوم کی طرف سے بہت زیادہ پریشر ہے۔ خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی پر جس نے کافی حد تک قوم کے جذبات کو کنٹرول رکھا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کی اپنی ساخت کو بھی بڑا مسئلہ ہے اور عوامی نیشنل پارٹی عوام میں وہ مقبولیت کھوتی جارہی ہے۔ کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی بنیادی طور پر ایک مزاحمتی پارٹی ہے۔ ریاست اور حکومت نے مسائل کو اتنا بگاڑ دیا ہے۔ کہ اب معاملات سنبھلنا مشکل ہے۔ اور یہ بات قابل فہم ہے کہ درمیانی راستے والی پارٹیاں جو کہ مسائل کا حل چاھتی ہیں جو کہ انتہا پسند نہیں ہیں، وہ بھی حالات سے مایوس ہوتی نظر آرہی ہیں۔
پختون قومی جرگہ میں سابقہ فاٹا کے مسائل، فوجی آپرشن سے پیدا شدہ صورتحال پاکستان کے گڈ اور بیڈ طالبان پالیساں اور اسٹیبلشمنٹ کو پختونوں کو دیوار سے لگانے کی سیاسی سماجی معاشی نفسیاتی اثرات پر بات چیت متوقع۔ پختونوں کی نگاہیں باچا خان مرکز کی طرف ہیں۔ کیونکہ وہ محسوس کر رہیں ریاست میں دوسرے درجے کے شہری ہو گئے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا اور گمبھیر مسئلہ ہے۔ پختون قوم اس جرگے سے بہت ساری امیدیں لگا بیٹھے ہیں اب امید کی جاتی ہے کہ یہ جرگہ بامقصد ہوگا اور اس کے اثرات پاکستانی۔ سماج پر بڑے خوشگوار ہوں گے اور یہ ان راستوں کا تعین کرے گی جن کے ذریعے ان مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
ریاست پاکستان کو اب پختونوں کی بات سننا ہو گی۔ مسائل دباتے جائیں گے تو مسائل گمبھیر ہوتے جائیں گے۔ جملہ سیاسی قیادت، سول اور ملٹری بیوروکریسی کو مل کر پختون خطے کو اس جنگ سے نکالنا ہوگا ورنہ یہ جنگ آخر میں قوم کو بغاوت کی طرف بھی لے کر جاسکتی ہے۔
پختون قیادت پر بھی بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جذباتیت کے بجائے حقائق پر مبنی اور قابل عمل منصوبہ تیار کرے تاکہ اس پر عمل کر کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔ اور راستہ وہی ہونا چاھیے جو کہ باچا خان بابا نے پوری پختون قوم کو بتا دیا تھا عدم تشدد، بات چیت، پیاراور محبت اور ایک دوسرے کو برداشت کر تے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا اور ملک کو آگے لے کر جانا۔
(بشکریہ ہم سب)