افغانستان میں جنگ بندی: پاکستان کا اعزاز یا تہمتوں کی تصدیق

shah-mehmood-qureshi-zalmay-khalilzad-660x371-1.jpg

سید مجاہد علی

کابل سے ہونے والے ایک اعلان کے مطابق طالبان اور سرکاری افواج نے ایک ہفتہ کی جنگ بندی کا آغاز کردیا ہے۔ اس ہفتہ کے دوران فریقین اگر جنگ بندی کا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو امکان ہے کہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پا جائے گا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر سارا کریڈٹ لینے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی مدد و تعاون کے بغیر نہ یہ معاہدہ ممکن ہوسکتا تھا اور نہ ہی افغانستان میں امن کی امید پیدا ہو سکتی تھی۔ اس بیان میں زور دیا گیا ہے کہ اب یہ افغان حکومت پرمنحصر ہے کہ وہ امن کو یقینی بنانے کے لئے کوششیں تیز کرے اور مستقل امن کی راہ ہموار کی جائے۔

شاہ محمود قریشی کے بیان میں دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے شاہ محمود قریشی کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اسلام آباد کے ساتھ بہتر تعلقات کا راستہ کابل سے ہو کر جاتا ہے۔ اب تازہ بیان میں پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکہ کو یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے، اس لئے اب امریکہ بھی پاکستان کے مفادات کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

اس حوالے سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ پاکستان نے امریکی دھمکی اور دباؤ کے بعد افغان امن مذاکرات کے لئے طالبان کو راضی کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ اگر امریکہ اسلام آباد پر دباؤ نہ ڈالتا تو شاید اب بھی مذاکرات کی بجائے اس معاملہ کا کوئی متبادل راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی۔ حیرت انگیز بات ہے کہ یہ بیان ایک ایسی حکومت کے وزیر خارجہ نے دیا ہے جو اس اصولی مؤقف کا اعلان کرتی رہی ہے کہ سیاسی بات چیت ہی افغان مسئلہ حل کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

اس مسئلہ کو جنگ جوئی اور تشدد کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پاکستانی حکومت اس اصول کی بنیاد پر افغانستان میں امن قائم کروانے میں سرگرم تھی تو امریکی وزیر خارجہ کو پہلی ہی ملاقات میں پاکستانی ہم منصب پر کیوں یہ واضح کرنا پڑا کہ اگر اسلام آباد نے افغان امن مذاکرات کو ممکن بنانے کے لئے خلوص نیت سے کام نہ کیا تو واشنگٹن کے ساتھ اس کے تعلقات خراب رہیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے ایسی گفتگو کو براہ راست دھمکی ہی سمجھنا چاہئے۔ اب اس کا جواب تو شاہ محمود قریشی ہی دے سکتے ہیں کہ اگر پاکستان سیاسی مذاکرات کو ہی مسئلہ کا واحد حل سمجھتا تھا تو امریکہ کو پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ کیوں اختیار کرنا پڑا تھا؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی ہمہ قسم عسکری امداد بند کردی تھی بلکہ معاہدہ کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی خدمات کا معاوضہ دینے سے بھی انکار کردیا گیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی لیڈروں پر دھوکہ دینے اور امریکی حکومتوں کو بے وقوف بنا کر کئی ارب ڈالر وصول کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ اسی قسم کے بیانات کے بعد آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف تن تنہا اپنی صلاحیت کی بنیاد پر جنگ لڑی ہے اور کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کو امداد کی نہیں بلکہ اپنی خدمات کے اعتراف کی حاجت ہے۔ دنیا کو اس کا احترام کرنا چاہئے۔

 تاہم پاکستان پر امریکہ کا یہ دباؤ اس وقت تک جاری رہا جب تک پاکستان نے افغان طالبان کو دوحہ میں امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ نہیں کرلیا۔ اب شاہ محمود قریشی ان مذاکرات کے نتیجہ میں ہونے والے ممکنہ معاہدے کا سہرا پاکستان کے سر باندھ رہے ہیں۔ البتہ بہتر ہوتا کہ وہ یہ وضاحت بھی کردیتے کہ صدر ٹرمپ کو پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرنے اور دھمکیاں دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی تھی؟ یا مائیک پومپیو نے کیوں ان سے یہ کہا تھا کہ اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا راستہ کابل سے ہوکر گزرتا ہے؟

اس پس منظر اور شاہ محمود قریشی کے بیان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ تو افغانستان میں امن معاہدہ کے لئے طویل عرصہ سے بے چین رہا ہے لیکن پاکستان ، افغان طالبان کی آڑ میں افغانستان کے لئے اپنے ایجنڈے کی کامیابی پر اصرار کرتا رہا تھا۔ تاہم امریکہ کی براہ راست دھمکیوں کے بعد جب پاکستان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تو طالبان کو مذاکرات پر مجبور کیا گیا۔ اسے کسی حکومت کی اصولی فتح نہیں بلکہ دباؤ میں کئے گئے فیصلے کہا جائے گا۔

اس تصویر میں اگر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو جون 2018 سے گرے لسٹ میں ڈالنے کے فیصلہ کو بھی شامل کر لیا جائے جسے پاکستان کا بازو مروڑنے کی امریکی کوشش سمجھا جاتا ہے تو صورت حال مزید واضح ہوجاتی ہے۔ پاکستان اب تک اس گرے لسٹ سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہؤا بلکہ ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ روز ختم ہونے والے اجلاس میں بھی پاکستان سے مزید ’پسپا‘ ہونے کے لئے کہا گیا ہے تاکہ جون میں اس معاملہ پر از سر نو غور کیا جائے۔ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے۔ پاکستان جیسے معاشی، سفارتی اور سیاسی مشکلات میں گھرے ملک کو دباؤ میں لانے کے لئے اس کے پاس متعدد ہتھکنڈے موجود رہیں گے۔ ایسے کسی دباؤ سے بچنے کے لئے پاکستان کو شفاف اور دیانت دارنہ حکمت عملی اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی وہ امریکہ کے علاوہ علاقے میں اپنے دشمنوں کا منہ بند کر سکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی بے شک افغان امن معاہدہ کے امکان پر خوشی کا اظہار کریں لیکن انہیں ایسا بیان دینے سے گریز کرنا چاہئے تھا جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی واضح ہوتی ہے اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے ناقص دوہرے معیار کا پتہ چلتا ہے۔ افغانستان کی جنگ میں پاکستان براہ راست فریق نہیں اور نہ ہی امن مذاکرات میں پاکستانی وفد کو شامل کیا گیا تھا۔ یہ مذاکرات براہ راست طالبان اور امریکہ کے درمیان ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا کردار صرف اتنا ہے کہ اس نے افغان طالبان کو ان مذاکرات میں شرکت پر آمادہ کیا ہے۔

پاکستان کا یہ کردار اعزاز کی بات ہونے کے باوجود اس سوال کو سامنے لاتا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور مستقبل میں جب امریکی افواج افغانستان سے واپس چلی جائیں گی تو پاکستان، طالبان کےساتھ اپنے اثر و رسوخ کو کیسے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ واضح ہونا چاہئے کہ دنیا کے حالات اب اسّی اور نوّے کی دہائی سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اس لئے پاکستان نے اگر ایک بار پھر پرانے ہتھکنڈے آزمانے کی کوشش کی تو افغانستان کا امن تو تباہ ہوگا لیکن پاکستان بھی امن و سکون سے نہیں رہ سکے گا۔

یہ ستم ظریفی اپنی جگہ موجود ہے افغانستان میں جنگ بندی کا اعلان امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں جمعرات کو افغان طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی کے اس مضمون کے بعد کیا جاسکا ہے کہ ’افغانستان کے لوگ جنگ سے عاجز آچکے ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ یہ بیان خوش آئیند ہے لیکن افغان عوام تو برس ہا برس سے امن کی امید لگائے بیٹھے ہیں تاہم طالبان اور دیگر عسکری دھڑوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔ سراج الدین حقانی کا گروپ ہی افغانستان میں دہشت گرد حملوں میں پیش پیش رہا ہے اور اس گروہ کے حوالے سے ہی پاکستان پر عسکریت پسند گروہوں کی اعانت و حمایت کرنے اور امن میں رکاوٹ بننے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔

پاکستان نے بلاشبہ ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی لیکن سراج الدین حقانی کے بیان کے بعد جنگ بندی اور معاہدہ کی نوید کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا بیان تو اس بات کا ہی ثبوت فراہم کرتا ہے کہ افغان امن میں پاکستان بڑی رکاوٹ بنا ہؤا تھا۔ اگر اس نے اپنا یہ کردار تسلیم کرلیا ہے تو اسے پاکستان کی خارجہ و سیکورٹی پالیسی کا مستقل حصہ بنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر افغانستان میں ایک نئی جنگ شروع ہونے اور خطے کے حالات بہتری کی بجائے ابتری کی طرف جانے میں دیر نہیں لگے گی۔

افغانستان میں حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد وہاں کی داخلی سیاست ایک نئے بحران میں داخل ہوچکی ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہونے کے باوجود امن کے لئے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کامیاب مذاکرات ضروری ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی نے افغان حکومت کو امن کے لئے کوششیں تیز کرنے کا مشورہ بھی اسی تناظر میں دیا ہے۔ تاہم اس کا انحصار بہت حد تک اس بات پر بھی ہوگا کہ پاکستان کس حد تک افغانستان کے اندرونی حالات سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ مستقبل کے کسی غیر واضح فائدے کے لئے اگر پاکستان نے افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا سلسلہ بند نہ کیا تو امن کا راستہ بھی مشکل ہوگا اور عالمی سطح پر پاکستان کا اعتبار بھی داغدار ہو گا۔

(بشکریہ ہم سب)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top