اسلام گل آفریدی
پشاور:پاکستان میں قالین سازی کی صنعت 1979ء میں افغان روس جنگ کی وجہ سے افغان مہاجرین کے پاکستا ن کی آمد کے بعد شروع ہوئی۔ مہاجرین کے لئے ملک کے مختلف علاقوں میں کیمپ قائم کیے گئے جبکہ سرحد پر قبائلی علاقوں اور خیبر پختونحوا میں بڑی تعداد میں ان لوگوں نے رہائش اختیار کرلی۔ معاشی مسائل کے حل کے لئے ان لوگوں نے پہلے فرصت میں بچوں، مرد اور عورتوں نے کم سطح پرقالین بنانے کا کام شروع کیا۔ افغانستان کے صوبہ ہرات، مزار شریف، فاریاب، بدغیس اور قندوز صوبوں کے لوگ اس کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جوکہ غیرپشتون ہیں یہ لوگ ازبک اور تاجک اقوم سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن بعد میں جب اس صنعت نے ترقی کی تو دوسرے علاقوں کے افغان مہاجرین نے بھی اس ہنر کو سیکھ لیا۔
قالین سازی انتہائی مشکل کا م ہے جس میں نہ صرف ذہن کا استعمال زیادہ ہوتا ہے بلکہ اس میں جسمانی طور پرطاقتور ہونا بھی ضروری ہے۔کیمپوں کے علاوہ قالین سازی افغان بستیوں میں بھی ہوتی رہی جس میں پشاور کے افغان کالونی، خراسان کیمپ، شمشتو کیمپ اور بورڈ کے بازار شامل ہیں۔ قالین کے فروخت کے لئے خیبربازار، شعبہ بازار اور صدر میں بڑے بڑے تجارتی مراکز قائم کئے گئے اور شروع میں یہ پورا کاروبار افغا نیوں کے کنٹرول میں تھا لیکن بعد میں قانونی، بنک اور بیرونی ممالک مال بھیجنے کی وجہ سے مجبور انا پاکستانی تاجروں کو حصہ دار بنانا پڑا۔قالین سازی کے صنعت میں پاکستان نے اتنی ترقی کی کہ وہ دنیا کے ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوگیا جو کہ بہترین قالین میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے، لیکن بدقسمتی کی وجہ سے آج یہ کاروبار انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔
محمد نواز افغانستان کے سری پُل کارہائشی اور قالین کاکاروبار اُن کا خاندانی پیشہ ہے۔نواز کے مطابق قالین کی مانگ میں کمی اور یہاں پر حکومت پاکستان کے اقدامات کی وجہ سے یہ کاروبار 50 فیصد سے بھی کم ہو کر رہ گیاہے۔نواز نے کہاکہ قالین کا خام مال بھی کافی مہنگا ہو گیا، پہلے ایک میڑ قالین پر اگر3 ہزار خرچہ ہوتا تھاتو اب10 ہزار تک پہنچ گیا ہے۔اُنھوں نے کہاکہ قالین ایک شوق ہے ضرورت نہیں اور دنیامیں خراب معاشی صورتحال نے بھی بڑی حد تک اس کاروبار پرمنفی اثرڈالا ہے۔
پشاورمیں قالین مار کیٹ کا زیادہ انحصار بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سیاح اور کاروباری لوگوں پرتھا۔ 2004تک پشاورمیں قائم امریکن قونصل خانے اور دوسرے کئی مقامات پر جہاں بیرونی ممالک سے آئے ہوئے باشندے باآسانی سے شرکت کرسکتے تھے جن کیلئے نمائشوں کا انعقاد کیاجاتاتھا جوکہ باہر کے منڈیوں میں افغان قالین کے لئے بہتر مارکیٹ کے تلاش میں کافی مدد گار ثابت ہوتا تھا۔
عمر پشاور میں ایک افغان تاجر ہے،اُن کا کہناہے کہ علاقے میں دہشت گردی کے لہر سے پہلے ہر دو ہفتے بعد قالین، افغان ملبوسات اور دوسرے نواد رات کی نمائش کا اہتمام پشاور اور دیگر شہروں میں ہوتا تھا، جن میں نہ صرف پاکستانی بلکہ بیرونی ممالک تاجر بڑی دلچسپی کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ اُن کے بقول بین الاقوامی سطح پر مال کے آرڈرز بھی وصول کرتے تھے،لیکن بدامنی کی وجہ سے باہر سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ بند ہوگیا اور بعض ناقص تجارتی پالیسوں کی وجہ سے قالین کے کاروبار سے وابستہ لوگوں نے اس کاروبار سے اپنا ہاتھ کھینچ کر افغانستان اور ایران منتقل ہوناشروع ہوگئے۔
حاجی ممریزجو کہ افغانستان کے شبرغان صوبے سے تعلق رکھتا ہے اُن بڑے بھائی نے 35 سال پہلے قالین کاکا روبار شروع کیاتھا جبکہ وہ 25 سال پہلے اس کاروبار سے منسلک ہوا۔اپنے کاروبار کے بارے میں اُن کہنا ہے کہ مقامی خریدار تو اب مکمل طور پرختم ہو چکاہے البتہ اُن لوگوں کا کاروبار گزارہ حال ہے جو کہ بین الاقومی منڈیوں میں مال بھیجتے ہیں اوروہاں پر اُن کے کاروباری معاہدے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ وہ ہرسال 35ہزار فٹ قالین امریکہ اور یورپ بھیجتا ہے، جس کی قیمت ڈالرز میں آتی ہے جبکہ یہاں کے بینک پاکستانی کرنسی دیتا ہیں اور وہ بھی اوپن مارکیٹ سے کم قیمت میں ڈالر تبدیل کرلیتاتھا جس کی وجہ سے ہمیں بہت بڑا نقصان ہو رہاہے۔ حاجی ممریز کے مطابق بڑامسئلہ یہ بھی تھاکہ یہاں پر قالین کے گاریگروں کو سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کاریگر یہاں سے افغانستان اور ایران چلے گئے ہیں۔
ممریز کے مطابق پاکستان میں قالین کی تیاری ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہوگیا ہے، اب قالین افغانستان میں تیارکرکے طورخم کے راستے پشاور پہنچائے جاتے ہیں۔اُن کے بقول صفائی، دوھلائی اور کش کاری کا کام یہاں افغان اور مقامی کاریگر کرتے ہوتا ہے کیونکہ کہ یہاں کا آب ہو آچھا ہے ا اور دیگر سہولیات بھی کافی موجود ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ پچھلے چار سالوں سے قالین بنانے والے گاریگر وں کی تعداد میں بہت کمی آئی ہے جس کی بنیادی وجہ حکومت کے جانب سے مہاجرین کے جبرنا بیدخلی اور سرحدپر آمدورفت کے لئے سخت شرائط ہیں،جس کی وجہ سے پہلے جوآرڈر دس دن میں تیار ہوتا تھا اب مہینوں میں بھی ممکن نہیں۔
شعبہ بازار میں مدینہ مارکیٹ قالین کے کاروبارکے مرکز کے طورپر جانا جاتا ہے۔ضلع کرم کے40 سالہ جاوید قالین کے صفائی قینچی کی مدد سے کررہاہے، وہ اپنے والد کے ساتھ لاہور میں قالین کا کام کرتا تھا لیکن پشاور میں افغان کاریگروں کی کمی کی وجہ سے بہتر معاوضہ ملنے کی وجہ سے وہ پشاور منتقل ہوا۔ اُنہوں نے کہاکہ تاجر مال کا آرڈر لیتا ہے لیکن جلد تیاری کے لئے مزدروں کو شدید دباؤ میں کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ ماہر کاریگر کی تعداد بہت کم ہوگیا ہے۔پچھلے کئی سالوں پاک افغان تجار ت میں مسائل کے بناء پر دوطرفہ تجارت کا مجموعی حجم کافی حد تک کم ہوچکاہے۔مئی 2016 ء میں سرحدی مقام طورخم پرگیٹ کے تعمیر سے پیدا ہونے والے صورتحال کی بناء پر دوطرفہ تجارات پرمنفی اثرات مرتب ہو گئے، کیونکہ آمدورفت کے لئے چمن، طور خم،انگور اڈہ اور پاڑہ چنار کے راستے بندکیے گئے۔
حاجی احمدشاہ ایک ٹرانسپورٹر ہے اور پچھلے32 سالوں کابل سے پشاور قالین لانے کے روزگار سے وابستہ ہے، اُنہوں نے بتایا کہ افغانستان کے8صوبوں کابل، مزار شریف، انحوئی، احیی، شبر غان، میمونہ، قندوز اور ہرات سے قالین تیار کیے جاتے ہیں جبکہ بڑی مقدار میں ہمسایہ ملک ایران سے بھی مال آتا ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ ایک کے بعد دیگر قندوز پر طالبان کے شدید حملوں کی وجہ سے کاروبار بہت زیادہ متاثر ہوا اور قالین کے پیداور بہت کم ہوچکا ہے۔
احمدشاہ نے کہاکہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں قالین کا کاروبار آدھے سے بھی کم رہ گیا ہے کیونکہ پہلے ایک ماہ میں دس بڑی گاڑیاں صرف اُن کے اڈے آتے تھا لیکن وہاں پر دوسرا اڈہ بھی تھا جو کہ اب بند ہوگیا اور اب بمشکل پانچ ٹرک مہینے میں آتا ہے۔
ٹرانسپوٹروں کا کہنا ہے کہ جاری پاک افغان کشیدہ صورتحال کی وجہ سے دوطرفہ تجارت میں مسائل کافی بڑھ چکے ہیں جس کے وجہ سے مال برادر گاڑیاں سرحد پر کئی دن تک کھڑے رہتے ہیں جس کی وجہ سے گاڑیوں میں مال کو نقصان پہنچنے کے خطر ے کے ساتھ گاڑی مالک کوپانچ ہزار روپے دن کے حسا ب سے اضافی کرایہ بھی دینا پڑتا ہے۔
محمد عالم اپنے شو روم میں ایک طر ف کرسی پربیٹھا ہے اور صرف ایک مزدور جو کہ قالین کے صفائی کے کام میں مصروف دکھائی دے رہاہے۔ یہ خاموشی صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ آپ قالین کے جس دُکان پر جائیں تو آپ کو دیکھنے کوملی گی۔عالم نے بتایا کہ اُن کے کاروباراس وجہ سے بھی کافی متاثر ہوا ہے کہ پاکستان مہاجرین کے واپسی کے لئے کبھی ایک اور کبھی دوسرے تاریخ مقرر کرتے جس کے وجہ سے افغان تاجرشدید ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ عالم کے مطابق سات سال پہلے صرف اس چھوٹے سے مارکیٹ دس جبکہ پورشعبہ بازارمیں ہروقت تیس سے زیادہ کینٹنر مال دستیاب ہوتا تھا لیکن اب تو حالت یہ ہے کہ پورے مارکیٹ میں آدھا کنٹینر بھی بمشکل سے ملے گا۔
پچھلے مالی سال کے 10ماہ میں پاکستان سے قالینوں کی برآمدات میں 5.18فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ ادارہ شماریات پاکستان کے اعدادوشمارکے مطابق جولائی سے لے کر اپریل 2018ء تک پاکستان نے قالینوں کی برآمدات سے 63.6ملین ڈالر کازرمبادلہ حاصل کیا جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 5.18فیصد کم ہے۔ گزشتہ مالی سال کے 10ماہ میں پاکستان نے قالینوں کی برآمدات سے 67.1 ملین ڈالر کازرمبادلہ کمایا تھا۔
پاکستان نے افغان مہاجر کارڈ پر تاجروں کو بینک اکاونٹ کھولنے کی قانونی اجازت دیا تھا لیکن بغیر کسی جواز کے اُن کو مکمل طور پربندکردیا گیا جس کے وجہ سے قالین سمیت دوسرے برآمدی اشیاء کے رقم کی منتقلی حوالے کے ذریعے شروع ہوا۔ مذکورہ طریقہ کار کی وجہ سے ایک تو تاجر کو ڈالر نہیں پاکستانی کرنسی ملتاہے جبکہ دوسری جانب ٹیکس یا حکومتی ریکارڈ میں بھی نہیں آتا۔عمران خان نے ڈیر ھ سال پہلے اقتدار سنبھالنے کے بعد دوبارہ افغان تاجروں کو بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت تو دیا لیکن اُس کے کو ئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔
پوری دنیا میں بہترین قالین پاکستان، ایران، وسطی ایشائی ممالک اورافغانستان میں تیار ہوتا ہے جو کہ بین الاقومی مارکیٹ میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہے۔معیار کے لحاظ سے مقامی مارکیٹ میں افغانستان سے مشہور اقسام کے قالین بلوچی، کزک، بلجیک، چوبرنگ، سارکوئی، حال محمدی، انحوی اور تبریزی وغیرہ کے قالین آتے ہیں۔ قالین بھیڑ کے اُون اور ریشم کے کپڑے سے تیار کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں افغان قالین کے نام ایک بڑی کمپنی کام کررہی ہے۔پشاور کے یونیورسٹی برانچ میں محمد اکرم سیل مینجر کے حیثیت سے کام کررہاہے۔ اُنھوں نے کہا کہ افغان قالین کے80 فیصد گاہگ غیر ملکی تھے جو کہ2008ء میں سوات آپریشن کے بعدتقریباًمکمل ختم ہو گیا۔اُنھوں نے کہا کہ کافی عرصہ سے پشاور میں قالین کی کوئی بڑی نمائش منعقد نہیں کرائی گئی ہے جس کی بنیاد پر ہم بین الاقوامی تاجر کو متوجہ کرسکیں اور اسطرح ہم بیرونی منڈیو ں میں قالین کے حوالے اپنے تشخص کو برقرار رکھ سکے کیونکہ ساری افغان قالین پاکستانی لیبل کے ساتھ فروخت ہوتا ہے۔
سمال انڈسٹری بورڈ کے مطابق تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت نے قالین سازی کی صنعت کو ترقی دینے کیلئے ایک جامع پلان سابقہ گورنر خیبر پختونخواہ اویس غنی کے خصوصی ہدایت پر تیار کیاگیا۔ جس کے تحت ضلع چارسدہ کے علاقہ نستہ میں عارضی کا انتخاب بھی کیا گیا۔منصوبے کے تحت قالین سازی سے وابستہ لوگوں کے لئے پلاٹ، بجلی، گیس، پانی، رہائش اور سیکورٹی سہولیات دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔
ادارے کے مطابق تمام انتظامات آخری مرحلے میں تھے کہ 11-2010 میں سیلاب نے مذکورہ جگہ کوبری طرح طرح متاثر کیا جس کی وجہ سے حکومت نے اس منصوبے کے لئے پشاور کے قریب متھر اکے علاقے میں اس صنعت کو قائم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس منصوبے کے لئے پہلے فرصت میں سو ملین روپے کی خطیر رقم مختص کردیاگیاتھا جس کے تحت لکی مروت، بنوں، پشاور، چارسدہ، ایبٹ آباداور مردان وغیرہ میں قالین کے تربیت دینے کے لئے مراکز بھی قائم کرنے تھے اس منصوبے کے تحت صرف مردان کے علاقے طور میں ایک ہی مرکزقائم ہوا۔
سمال انٹرسٹری بورڈ کے حکام نے بتایاکہ مذکورہ منصوبے کے حوالے سے آخری بار 29اپریل 2016 کو سمیڈا،پی۔ این۔ ڈی اور قالین کے کاروباری سے وابستہ افرادکا ایک مشترکہ اجلاس ہوا تھا اور متفقہ طورپر فیصلہ ہوا کہ مذکورہ منصوبے کے حوالے سے ایک معلوماتی رپورٹ دوبارہ تیار کیا جائیگا جس میں سمیڈا سے بھی تعاون کا مطالبہ کیا گیا تھا۔