کیا مرد اور لڑکے بھی جنسی ہراسمنٹ کے شکار ہوسکتے ہیں؟

91db4b01-f828-4d07-a628-94edfa2b7d3e.jpg

پشاور : یو این ویمن اور صوبائی محتسب کے اشترک سے مختلف اداروں میں جنسی ہراساں کے واقعات کے روتھام اور تفتیش کے لئے قائم کمیٹیوں کے دوروزہ تربیتی پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں صوبے بھر سے تقریبا تیس افراد نے شرکت کیں۔

کشور سلطانہ نے ہراسمںٹ کے مسائل پر شرکاء کو تربیت دی، اُن کہنا تھا کہ 2010 میں کام کے مقامات پر لوگوں کے جنسی ہراساں کے ہونے والے واقعات کے رپورٹنگ اور تفتیش کے لئے قانون کے تحت تین رکنی کمیٹیاں قائم کیں گئے جس کے کام کو مزید موثر اور بہتر بنانے کے لئے دوروزہ تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ شرکاء کو پوری قانون، اختیار اور واقعات کے چھا ن بین کے حوالے سے معلومات فراہم کیں گئے کہ وہ طرح دفاتر اور اداروں میں کام کے ماحول کو کیسے ساز گابنائینگے تاکہ دفتر امور بہتر طریقے سے آگے بڑھ سکے۔ اُنہوں نے کہاکہ کام کے مقامات پر جنسی ہراساں کے قانون اور کمیٹی کے اختیاریات بارے میں شرکاء کو معلومات فراہم کیں گئے۔

2010 میں کام کے مقامات پر جنسی ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون کے تحت لازمی تمام سرکاری اور نجی اداروں میں تین رکنی کمیٹی قائم کیا جائیگا جس میں ایک ممبر خاتون لازمی قرار دیا گیا ہے جو نہ صرف خواتین بلکہ مردوں اور لڑکوں کے ہراساں کے واقعات کے شکایت بھی سنے جائینگے۔

نبیلہ صفدر بھی تربیتی شرکاء میں شامل جو صوبائی محکمہ لیبر میں آفسر کے حیثیت سے کام کررہی اور اپنے ادارے میں اُس کمیٹی کے ممبر بھی جو جنسی ہراساں کے وقعات کے روک تھام کے لئے بناہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس قسم کے تربیت انتہائی اہم ہے کیونکہ کہ اس کے ساتھ نہ صرف مزکورہ قانون کے بارے میں لوگوں کو معلومات آسانی کے ساتھ میسر آئینگے بلکہ جو کمیٹیاں قائم اُن کے ستعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اُن کے بقول یہاں پر شرکاء کے تجربات سے بھی کا فی سیکھنے کو ملا اپنے اداروں میں کمیٹی ممبران ہے اور کافی عرصے سے کام کررہے ہیں لیکن یہاں پر مختلف لوگ اپنے کام اور تجربات کے بارے میں جو معلومات شریک کرتے ہیں اُس سے کافی سیکھنے کو ملاتاہے۔

کشور سلطان نے کہاکہ تربیتی شرکاء میں مختلف سرکاری اداروں جن میں تعلیم، سماجی بہود، وفاقی تحقیقاتی ادارہ، لیبر اورمیڈیا کے خواتین اور مرد ملازمین نے شر یک رہے۔ اُنہوں نے کہ یہاں پر آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ جب بات وہ کہتے ہیں کام کے مقامات پر افراد کے ہراساں کرنے کے قانون کے بارے میں نہ صرف ملازمین بلکہ انتہائی نچلے سطح جن میں یونیورسٹی، کالج اور سکول کے تک دائر بڑھایا جائے تاکہ مستقبل میں اس قانون پر عمل دار آمد کو مزید یقینی بنا کر جنسی ہرساں کرنے کے واقعات پر قابو پایا جا سکے۔

ڈاکٹر ذیشان کوہاٹ یونیورسٹی میں اسٹنٹ پروفیسر کے حیثیت سے حدمات سرانجا م دے ہیں اور یونیوسٹی میں کمیٹی کا ممبر بھی ہے۔ اُنہوں نے دوروزہ تربیت کو انتہائی قرار دیا اور کہا کہ قانو ن کے بارے میں بہت آسان زبان میں معلوما ت موصول ہوئے جبکہ واقعات کے رپوٹ اور بعد میں تحقیقات کے حوالے قانونی کے مطابق کام کے بارے میں کافی آچھے رہنمائی ہوئی۔
نبیلہ صفد ر نے کہاکہ ہر وقت کسی دوسرے کے انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ خود بھی مثبت کام میں اپنا حصہ کردار ادا کرنا چاہئے۔

اُن کے بقول جب و ہ اپنے ادارے جاتا ہے تو وہاں پر کام کرنے والے تمام لوگوں کے لئے آگاہی مہم شروع کرئیگا تا کہ اُن کو بھی اس قانون اور کمیٹیوں کے کردارکے بارے میں معلومات حاصل ہوسکے۔ اُن کا مزیدکہنا ہے کہ تربیت اور آگاہی کے لئے اس قسم کے تقریبات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس قانو ن کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔

کشورسلطان نے کہاکہ تربیتی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے کے خواتین اہلکاروں کو خصوصی طورپر شامل کیا گیا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کے استعمال بڑھنے سے خواتین کو ہراساں کرنے طریقے بھی تبدیل ہوچکے ہیں، اُن کے بقول ٹیلی فون اورانٹرنیٹ کے زریعے ہراساں کرنے کے واقعات جب سامنے آتے ہیں تو اُس کے تحقیقات کے مختلف پہلوجن میں قانونی اور تکینکی مسائل کے بارے میں آگاہی دئیے گئے۔ جس کے تحقیق میں مزکورہ ادارے کا انتہائی اہم کرادار ہے۔

کمیٹی ممبرا ن کا کہنا تھا کہ اداروں میں جنسی ہراساں کے واقعات کے روتھام میں کئی مسائل حائل جن میں قانو ن کے بارے میں کم معلومات، کئی وجوہات کے بناء پر متاثر خواتین کاسامنے نہ آنااور واقعات کے تحقیقات پر اعلی حکام کا اثرانداز ہوناوغیر ہ شامل ہیں۔

خیبر پختونخواکے صوبائی حکومت نے کام کرنے والے خواتین کو تحفظ دینے اور شکایات کے ازلے کے لئے صوبے میں پہلی دفعہ خاتون محتسب برائے انسداد ہرانسانی پر قانونی اور سماجی کارکن رخشندہ ناز کو پچھلے اپریل میں تعینات کردیا ہے۔صوبائی محتسب کے جانب سے پچاس سے زیادہ شکایت کی چھان بین کا عمل جاری ہے جبکہ سرکاری اور نجی اداروں کو قانون کے مطابق ہرانسانی کے واقعات کے روک تھام کے لئے کمیٹی کے عدم موجود گی پر ہزار سے زیادہ نوٹسز جاری کردئیے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top