پشاور:دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دس دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہاہے۔ اس سلسلے میں خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں یو این ڈی کے تعاون سے آرکائیوہال میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان، مشیر تعلیم ضیاء اللہ بنگش، معاون خصوصی برائے سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی کامران بنگش کے علاوہ ممبران صوبائی اسمبلی، سماجی کارکنوں اور وکلاء نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یو این ڈی پی کے نمائندے ملک ذوالفقار نے کہاکہ صوبائی حکومت کے ساتھ پچھلے تین سالوں سے انسانی حقوق کے حوالے کئی اہم اقدامات پر مشترکہ کام جاری جس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ ملک کی تاریخ میں سال 2014میں انسانی حقوق ایکٹ پاس گیا جس کے تحت پالیسی بنی اور ڈایکٹریکٹ کا قیام عمل میں لایاگیا، خیبر پختونخوا صوبے میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کے آن لائن اور جدید طریقے سے اندارج کی سہولت میسر ہے اور پوری سال کے اعداد شمار آسانی کے ساتھ دستیاب ہوتے جوکہ نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیاء میں منفرد مثال ہے۔
مشیر تعلیم ضیاء اللہ بنگش کا کہنا تھا کہ صوبے میں انسانی حقوق کے حوالے بہت زیادہ قانون سازی ہوچکا ہے لیکن اس پر عمل دارآمد نہیں ہوجس کی بنیادی وجہ اداروں کے درمیان رابطوں او ر تعاون کا فقدان ہے جس کو دور کرنے کے لئے وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے تمام اداروں کو حکم جاری کردیا ہے کہ تین ماہ کے اندار متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور جن
اداروں کے حوالے قوانین موجود نہیں تو اُس کے لئے بھی اقدامات کیں جائیں۔
صوبائی وزیر قانو ن سلطان محمد خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے پچھلے اور موجود دور میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کئی اہم قوانین سامنے ہیں جن میں انسانی حقوق پالیسی و ڈائریکٹریٹ، بچوں اور خاتون کے حقوق کے لئے قوانین، کام کرنے والے خواتین کے تحفظ کے لئے پہلی خاتون صوبائی محتسب کی تعیناتی، عریب اور لاچار افراد کو مفت قانونی مدد کی فراہمی اور جائیداد میں خواتین کو حق کے قانون قابل ذکر ہیں۔
سطان محمد خان نے کہاکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے نئے ضم شدہ اضلاع میں کافی مسائل موجود تھے کیونکہ وہاں پر کوئی ایساقانون نفاذ عمل نہیں تھا جس کے تحت لوگوں کو تحفظ فراہم کیاجاتا۔اُن کے بقول موجود ہ وقت میں ان اضلاع میں عدالت، پولیس اور دیگر اداروں نے کام شروع کردیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہاکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے عدالتیں اپنا کام کررہا ہے اور کافی تعداد میں لوگوں کے کیسز سامنے آچکے ہیں۔ ایکشن اینڈ ایڈ سول پاور آرڈیننس کو اعلی عدلیہ کے جانب سے کالعدم قرار دینے جانے فیصلے پر اُنہوں کسی قسم کے تبصرہ کرنے سے انکار کیا اور موقف اپنا یا کہ مزکورہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
انسانی حقوق کے لئے سرگرم کارکن تیمور کمال نے کہاکہ صوبے میں قوانین تو کافی موجود ہے لیکن پر عمل دارآمد نہیں ہورہاہے جس کی وجہ سے روز بروز بچوں کے ساتھ زیادتی، خواتین اور خواجہ سرا پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔اُنہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت خواجہ سرائوں کو حقوق دینے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکا ہے جبکہ اقلیتی برادری کے مسائل کے حل کے لئے ہونے والے اقدامات لوگوں کو ثمرات ملنا ضروری ہے۔
یادرہے کہ کچھ عرصہ پہلے خیبر پختونخوا کے صوبائی حکومت نے ایکشن اینڈ ایڈ سول پاور آرڈیننس کو پوری صوبے میں نفاذکرنے کا اعلان کیا تھا جس کے ردعمل میں ججز اور وکیلا ء کے عالمی تنظیمو ں نے شدید تحفظات کا اظہارکیاتھا اور بعدمیں پشاور ہائی کورٹ نے اس کو کالعدم قرار دیاتھا جس کو بعد میں صوبائی حکومت نے اس فیصلے کو سپر یم کورٹ میں چیلنج کیا۔مزکورہ قانون سال 2011میں سابق قبائلی علاقوں میں صدارتی آرڈنیس کے ذریعے نفاذ کیا گیا تھا۔