سیدرسول بیٹنی
پشاور:معاشرے میں انٹرایکٹیو تھیڑ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے فلاحی ادارے کمیونٹی ورلڈ سروس ایشیاء (سی ڈبلیو ایس اے) کے زیر اہتمام سول سوسائٹی کے نمائندوں کیلئے جامعہ پشاور کے باڑہ گلی کیپس میں سات روزہ ٹریننگ کا انعقاد کیا گیا۔ٹریننگ کا مقصد تھیٹر کے ذریعےانسانی ذہنوں کو تبدیل کرنے اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ کیلئے پرفارمنگ آرٹس کا استعمال کے بارے میں شعور دینا تھا۔
ٹریننگ میں صوبہ پنجاب ،سندھ اور خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے 30 کے قریب سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
سی ڈبلیو ایس اے کیلئے جامعہ پشاور کے فوکل پرسن اور شعبہ سوشل ورک کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ابرار نے سات روزہ ٹریننگ میں تمام شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ تھیٹر کا انسانی زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے جو کہ معاشرتی اچھائیوں اور برائیوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔انہوں نے کہا کہ تھیٹر معاشرے میں رہنے والے افراد کے درمیان معاشرتی فرق کو جاننے اور انکو ختم کرنے کیلئے ایک پُل کا کام کرتا ہے۔
ٹرینر ظہور احمد جویا نے کہا کہ اس تھیٹرٹریننگ کا مقصد کمیونٹی میں تھیٹر کے ذریعے سماجی مسائل جیسے لڑکیوں کی کم عمرمیں شادی،فوڈ سیکورٹی، آب وہوا کی تبدیلی،بچوں اور خواتین کی حقوق کے حوالے سے شعور اور آگاہی بیدارکرنا تھا۔انہوں نے کہا کہ انٹرایکٹیو تھیٹرکے ذریعے ہم معاشرے میں خواتین اور دوسرے مظلوم طبقات کو درپیش سماجی اور معاشرتی مسائل کی نشاندہی کرکے ناظرین سے ان مسائل کی حل بھی تلاش کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈرامے میں اگر کسی ناظر کو کسی کردار سے اختلاف ہوتا ہے تومنتظمین اُس ناظر کو سٹیج پر بلا کر ڈرامے کے بارے میں فیڈ بیک لیتے ہیں اورناظر کویہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ خود اس کردار کوناظرین کے سامنے پرفارم کرے۔
سندھ سے آئے ہوئے بھرت کمار جوکہ ہندو کمیوٹنی سے تعلق رکھتے ہیں نے تھیٹر منتظمین کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہاں مجھے پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ واقفیت کا موقع ملا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک خوبصورت گلدستہ ہے جہاں مختلف دھرموں سے تعلق رکھنے والے لوگ خوشی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔
ٹریننگ میں ماہرین نے شرکاء کو تھیڑکی اہمیت،معاشرے کی ترقی میں اس آرٹ کا کردار اور تھیڑ کے ذریعے معاشرے میں برداشت اور مکالمے کی فضاء کو فروغٖ دینے اور معاشرتی ترقی کے مختلف موضاعات پر لیکچر دئیے گئے جس میں شرکاء نے خوب دلچسپی لی اور ماہرین سے اُن کے اذہان میں پیدا ہونے والی سوالات پوچھے۔
صوبہ پنجاب کے ضلع ملتان سے تعلق رکھنے والی تسنیم بشیر جو کہ اس وقت ڈویلپمنٹ سیکٹر میں ایک کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتی ہے،تھیٹر ٹریننگ کے حوالے سے بتایا کہ تھیٹر کے ذریعے خواتین کی حقوق کے بارے میں شعور اجاگرکیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر ایک معاشرے نے ترقی کرنا ہو تو عورت کو بھی مرد کے ساتھ شانہ بشانہ چلنا ہوگا اور معاشرے کی ترقی میں دوںوں کو اپنے اپنے کردار ادا کرنے ہونگے کیونکہ دونوں کی مثال موٹرسائیکل کی دو پہیوں کی مانند ہے موٹر سائیکل کبھی بھی ایک پہیے سے حرکت نہیں کرسکتا جب تک کہ دونوں متحرک نہ ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی ہمارے معاشرے میں رشتوں کا احترام تو کیا جا تا ہے لیکن عمومی طور پر خواتین کا احترام نہیں کیا جاتا۔
ٹریننگ کے دوران کلچر نائٹ بھی منایا گیا جس میں پختونخوا سے تعلق رکھنے والے شرکاء نے پختونوں کی روایتی رقص (اتنڑ)،سندھ سے آنے والے شرکاء نےسندھی کلچر جبکہ پنجاب سے آنے والوں نے پنجابی بھنگڑا پیش کیا، جس کو شرکاء نے بے حد پسند کیا۔
ٹریننگ میں شریک سماجی ادارے’ وائس آف پاکستان’ سے منسلک جواد عزیز ساول نے ٹریننگ کے حوالے سے بتایا کہ میرے لئے یہ تربیتی ورکشاپ بہت زبردست رہا کیونکہ اس میں ملک کے مختلف صوبو﷽ں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس میں شریک تھے جس میں مجھے سندھی ،سرائیکی اور ہزارہ ریجن کے لوگوں کے ساتھ انٹریکشن کا موقع ملا۔
شرکاء نے ٹریننگ کے دوران انٹرایکٹیو تھیڑ کی ریہرسلز کی اور اس کے علاوہ سٹیج پر آنے اور مختلف کردار نبھانے کی خوب مشق کی۔
ٹرینر ظفر شاہین نے کہا کہ پرفارمنگ آرٹس میں ہمارے پاس تھیٹرایک اہم ٹول ہے جس کے ذریعے کمیونٹی میں پائیدار تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بے شک انٹرایکٹیو تھیڑ میں حالات کا منظر کشی تھوڑا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن دراصل یہ رویے ہمارے معاشرے میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ ہم ڈائیلاگ کے ذریعے اپنے ناظرین کے ذہنوں میں ایک نیا بیج ضرور بوتے ہیں اور اس سے لوگوں کے روزمرہ رویوں میں آہستہ آہستہ تبدیلی وقوع پزیر ہوتی ہیں۔
سید عبداللہ شاہ جو کہ اس وقت شعبہ سوشل ورک جامعہ پشاور میں فائنل ائیر کا طالب علم ہے ٹریننگ کے حوالے سے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ایک الگ قسم کا برتاو کیاجاتا ہے اکژعوامی مقامات اور تعلیمی اداروں میں خواتین کو چھیڑا جاتا ہے جس کے بعد خواتین بے چاری نہ تو گھر میں اس مسئلے کو کسی کے ساتھ شیئر کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی ٹیچر وغیرہ سے اور سارا بوجھ اپنے سر پر اٹھا لیتی ہے،اگر شیئر کرتے ہیں تو اُن کو شق کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ٹریننگ کے آرگنائزر لبنیٰ حسین نے ‘دی پشاورپوسٹ’ کو بتایا کہ دراصل اس تربیت کا مقصد ڈویلپمنٹ سیکٹر کے لوگوں کی پرفارمنگ آرٹس جس میں خاص طور پر تھیٹر کے حوالے سے کیپسٹی بلڈنگ اور کیمونیکشن سکلز کو بہتر کرنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے سیکٹر کے وہ لوگ جو براہ راست کمیونٹی میں کام کرتے ہیں اکثراوقات انکی مطلوبہ تربیت نہیں ہوتی جس کی وجہ اُنکو فیلڈ میں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کی شخصیت سازی کریں تا کہ وہ بلا کسی جھجھک اپنے فرائض کو ادا کرسکیں۔انہوں نےمزید بتایا کہ تھیٹر ایک ایسا ٹول ہے جس کے ذریعے ہم آسانی سے لوگوں کی ذہنوں کو تبدیل کرسکتے ہیں اور پھر ان سے کمیونٹی کے ترقی کیلئے اپنا کام لے سکتے ہیں۔
لبنیٰ حسین نے بتایا کہ کمیونٹی میں این جی اوز کے خلاف ایک سوچھے سمجھے سازش کے تحت گمراہ کن افواہیں پھیلائی جاتی ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ فیلڈ ورکرز صحیح معنوں میں کمیونٹی ڈویلپمنت پر توجہ مرکوز ہوں تاکہ ان جھوٹی افواہوں کا خاتمہ ہوسکیں۔