پارا چنار: خیبر پختونخواکے قبائلی ضلع کرم میں افغان سرحدی گزرگاہ خرلاچی کو مقامی تاجروں،گاڑی مالکان، کسٹم کلیرنس ایجنٹس اور مزدوروں نے برآمدات اور درآمدات کے لئے احتجاجاً بندکر دیا ہے۔ مقامی تاجروں نے موقف اپنایا ہے کہ پچھلے چارمہینوں سے سرحد پر نئے اور غیر ضروری قوانین کے نفاذ سے نہ صرف تاجربرادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑ رہاہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے دو طرفہ تجارت کے لئے ہونے والے اعلانات کے باجود بھی مسائل کم ہونے کے بجائے اُس میں پہلے کے نسبت کافی اضافہ ہوچکا ہے۔
پاراچنار کے تاجر رہنماء کا موقف
سرحد پر تجارتی سرگرمیوں سے وابستہ افراد نے جمعرات کو پاراچنار میں ایک احتجاجی مظاہر ہ بھی کیا تھا۔تاجر رہنماء سرتاج خان نے رابطے پر بتایاکہ خرلاچی کے سرحدپر دوطرفہ تجارت کا لین دین کا ایک الگ قانون نافذ ہے جو کہ افغانستان کے ساتھ دوسرے سرحدی گزرگاہوں پر نافذ نہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پاکستان سے تجارتی سامان لے جانے والے ٹرکوں کی سرحد پر کسٹم حکام سے کلئیرنس ہو جاتا ہے اور اُ ن کو سرحد پارجانے کے لئے گیٹ پاس بھی جاری کردیا جاتاہے لیکن اس کے باوجودبھی سیکورٹی چیکنگ اور جی ڈی اسناد کے نام پر کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُن کے بقول پہلے سے مسائل کے بناء پر برآمدی گاڑیوں میں کافی کمی آچکی ہے اور موجودہ وقت میں روزانہ سوکے قریب مال بردار گاڑی سرحد پہنچ جاتے ہیں لیکن بمشکل سے بیس گاڑی سرحدپار افغانستان چلے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں یہ تعداددو سے تین سوتک تھا۔
خرلاچی کے مقام پر دوطرفہ تجارت سے چار سو سے زیادہ مقامی مزدور اورکلئیرنس ایجنٹس برسرروزگار ہے جو کہ علاقے میں لوگوں کے کمائی کا واحد ذریعہ ہے۔
امدادحسین سرحد پر کام کرنے والے مزدوروں میں شامل ہے اور ہرروز پانچ سے چھ سوروپے روز کماتا تھا لیکن پچھلے کئی ہفتوں سے وہ صبح کام کے غرض سے سرحد پہنچ جاتاہے لیکن پچھلے تین چارہفتوں سے اُنہوں نے کچھ نہیں کمایا۔ اُنہوں نے کہاکہ گھرکے اخراجات پورا کرنے کے لئے یہی ایک وسیلہ تھا جس کو حکومتی اداروں نے مختلف مسائل سامنے لانے کے بنیاد پر ختم کرکے سینکڑوں مقامی افراد کو بے روزگار کردیا ہے۔
بعض تاجروں کا کہناتھا کہ خرلاچی کے علاوہ دوسرے سرحدی گزرگاہوں پر کسٹم، سیکورٹی اداروں یا نیشنل لاجسٹک سیل کے جو قوانین نافذالعمل ہے اُس کا نفاذ یہا ں پر کیاجائے کیونکہ تمام ضروری کاروائی کسٹم حکام سے ختم کرکے جب گاڑی سرحد پار جاتی ہے تو سیکورٹی اداروں کی جانب سے ایسے دستاویزت مانگے جاتے ہیں جو کہ اس پہلے پاک افغان کے کسی بھی سرحدی گزرگاہ پر نہیں مانگا گیاہے۔ایک تاجر نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایاکہ جب سے مقامی انتظامیہ سے سیکورٹی سنبھالنے کا اختیار لیاگیا ہے تب سے مسائل میں کافی اضافہ اور دوطرفہ تجارت انتہائی نچلے درجے تک پہنچ چکاہے۔
سرتاج خان نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ تاجروں نے مسائل کے حل کے لئے کئی بار سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کی لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئی جس کے وجہ سے مجبوراً سرحد پر ہرقسم کے تجارتی سرگرمیاں معطل کردئیے گئے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ جب تک تاجروں کے مسائل حل نہیں ہوتے تب تک احتجاج جاری رہیگا۔
ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ خراب تجارتی مراسم دوبارہ بحال کرنے کے لئے پچھلے اگست کے وسط سے طورخم سرحدی گزرگاہ کو چوبیس گھنٹے کے لئے کھولنے فیصلہ کیا گیالیکن اس کے باجود بھی کسٹم کلیئرنس ایجنٹس اورگاڑی مالکان ناخوش دکھائی دے رہے ہیں۔حکومت کے اس فیصلے سے یہی اُمیدیں تھیں کہ انگور آڈہ، غلام خان، خرلاچی اور چمن پر سہولیات میں مزید اضافہ جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے چترال، باجوڑاور مہمند میں کئی سالوں سے بند سرحدی مقامات جلد کھول دئیے جائینگے لیکن اس حصے میں کافی مشکلات دکھائی دے رہے ہیں۔
علاقے میں بدامنی کی وجہ سے خرلاچی کو 2007-11تک ہرقسم کے آمد وفت کے لئے بندکردیا گیاتھا۔ اُس وقت روزانہ تین سو چار گاڑی سرحد پار افغانستان جاتے تھے۔ علاقے میں فوجی کاروئی مکمل ہونے کے بعددوبارہ سال 2015-16میں ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ مذکورہ مقام دوطرفہ تجارت کے لئے دوبارہ کھول دیاگیا لیکن ماضی کے نسبت درمدآت اور برامد آت میں کافی کمی واقع ہوئی جس کے وجہ مقامی آبادی کے معیشت پر کافی برُے آثرت مرتب ہوئے ہیں۔