پشاور: 20 نومبر پاکستا ن سمیت دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس سلسلے میں گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کے زیر اہتمام پشاور پریس کلب میں ایک پریس کانفرس کا اہتمام کیاگیا جس میں بچوں کو درپیش مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور خصوصا اُن بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات پر زور دیاگیا جوکہ کسی جرم کے الزام میں جیل، حوالات یا تھانے میں رکھاجاتاہے جوکہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔
گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کے پراجیکٹ کوارڈنیٹراور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم رکن عمران ٹکر نے بتایا کہ سن 2000میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک صدارتی آرڈینس جاری کردیا گیا جوکہ بعد میں باقاعدہ طورپرقانو ن بن کر پوری ملک میں اسکا نفاذ ہوا۔ اُن کے بقول اس قانون میں ریاست پاکستان نے جو بچوں کے تحفظ کے لئے جن عالمی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اُس کے مطابق بچوں کوکسی جرم کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد جیل کے بجائے ایسے خصوصی مراکز میں رکھنا ہوگا جہاں پر اُن کو زندگی کے تمام بنیادی سہولیات میسر ہواور جر م ثابت ہونے کے صورت میں اصلاحی مرکز میں قید کی مدت پوری کرینگے جہاں پر اُن کے بہتر ذہنی اور جسمانی تربیت ہوسکیں تاکہ وہ بعد میں معاشرے کا ایک کارآمد شہری بن سکے۔
پچھلے مارچ سے اب تک خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور،مرادن اور ابیٹ آباد میں بچوں کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کئے گئے جوکہ عالمی اصولوں کے مطابق کام کررہے ہیں لیکن یہ اقدام پشاور ہائی کورٹ نے اُٹھایا ہے جبکہ صوبائی حکومت کے ملکی اور بین الاقومی قوانین کے مطابق مزید اضلاع میں ان خصوصی عدالتوں کا قیام لازمی ہے۔
مہمین مجید پیشے کے لحاظ سے وکیل ہے اور بچوں کو مفت قانونی مدد فراہم کراتی ہے۔ بچوں کے عالمی قوانین کے حوالے سے اُنہوں نے کہاکہ قانون کے مطابق کسی جرم میں گرفتاربچے کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کرنا لازمی ہوتاہے اور کسی بھی جرم میں ضمانت کی حصول اُن کا بنیادی حق ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ ایسے مقدمات کے فیصلے کیلئے چھ ماہ کا عرصہ مقرر کیاگیاہے لیکن اس مدت میں بچے جیل کے بجائے خصوصی مرکز میں رکھنا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ اب تک اس سلسلے میں تمام صوبوں نے بہت ہی کم اقدامات اُٹھائے ہیں جس کے تحت بچوں کو قانونی تحفظ دیا جاسکے۔
عمران ٹکر نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ بچو ں کے لئے جوینائیل جسٹس سسٹم ایکٹ 2018میں واضح طور پر کہاگیا ہے کہ جو بچے کسی واقعے میں متاثر ہو یا کسی جرم کے الزام میں گرفتار ہوتواُس کے حوالے سے میڈیا تشہیراور معلومات دینے کے لئے واضح ہدایت موجود ہیں لیکن اس کے باجود بھی اُن کی خلاف ورزی ابھی بھی جاری ہے۔اُنہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں بچوں کے حوالے سے رپورٹنگ کے اصول واضح کرناچاہئے تاکہ متاثر بچوں کو ذ ہنی اور جسمانی اذیت سے بچا کر اُن کے بہتر مستقبل کی فکر کرنا چاہیے۔
شانزہ مری جو کہ گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لئے کام کررہی ہے کاکہناہے کہ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد اور اُس کے بعد قتل کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوچکاہے جس کے روتھام کے لئے بچوں میں شعور اور آگاہی پید ا کرنا انتہائی ضروری ہے۔
عمران ٹکر کے مطابق سن 2000میں جب بچوں کے حقوق کے لئے کوئی قانون موجود نہیں تھا تو خیبر پختونخوا کے مختلف جیلوں میں بچو ں کے تعداد تقریبا تین ہزار تھا لیکن موجودہ وقت میں یہ تعداد کم ہوکر چارسو تک رہ گیا جس کا مطلب ہے اس حصے میں بہتر ی کے طرف اقدامات ہورہے ہیں لیکن اس میں مزید اقدامات کی گنجائش موجود ہے جو چاروں صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔