پشاور : پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام جی ایس پی پلس اور پاکستان کے ساتھ ہونیوالے معاہدات سے متعلق سول سوسائٹی اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ پشاور میں مشاورتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔
ورکشاپ میں مذکورہ تنظیم کے نمائندے شجاع الدین قریشی،پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک کے تیمور کمال ، ایریاسٹڈی سنٹر کے سابقہ ڈائریکٹر ڈاکٹر سرفراز ، ڈپٹی ڈائریکٹر ہیومن رائٹس ڈائریکٹوریٹ سکندر خان،صوبائی محتسب برائے جنسی حراسیت رخشندہ ناز،اراکین خیبر پختونخوا اسمبلی نعیمہ کشور اور آسیہ خٹک سمیت صحافیوں اور وکلاء نے شرکت کی ۔
شرکاء نے کہاکہ پاکستان نے جی ایس پی پلس کی سہولت کے ساتھ سینتیس تک مختلف کنونشنز پر دستخط کئے ہیں جن میں تشدد نہ کرنے، جبری مشقت، آزادی اظہار، آزاد میڈیا ، مزدوروں، ماحول، سوشل کمپلائنس وغیرہ شامل ہیں لیکن بد قسمتی سے ان میں بیشتر کنونشنز پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا جبکہ خصوصاً لیبر قوانین پر عدم عملدرآمد سے مزدور طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مزدوروں کیلئے قانون سازی کی جاتی ہے اور کئی قوانین موجود ہیں جبکہ آئی ایل او کے کنونشزکی بھی توثیق کی گئی ہے تاہم اس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا ، خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں کارخانو کے مزدوروں کو یونین سازی کی اجازت نہیں اور اگروہ یونین سازی کرے تو کارخانوں سے فارغ کئے جاتے ہیں صنعتی تعلقات کے قوانین میں بھی صرف مزدوروں کیلئے پیچیدگیاں پیدا کی جارہی ہیں ، اکثر کارخانوں اور دیگر اداروں میں مزدوروں کے کم از کم اجرت پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مزدوروں کی کم از کم اجرت پر عملدرآمد کرانے اور یونین سازی سمیت دیگر حقوق دینے کیلئے اقدامات کرے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کارخانواوردیگر کمرشل اداروں میں مزدوروں کو مناسب ماحول‘ حفاظتی آلات ‘ دوران حادثہ علاج کی سہولیات کی فراہمی اور بروقت تنخواہوں کی ادائیگی پرنہیں کی جارہی ، لیبر انسپکشن کمزور ہونے کی وجہ سے خواتین اوربچوں سمیت تمام مزودرقانونی مراعات کے حصو ل سے محروم ہیں ،
شرکاء نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مزدوروں کیلئے کم ازکم اجرت ، حفاظتی آلات کی فراہمی ، پنشن ، علاج معالجہ کی فراہمی ، خواتین کو دوران زچگی چھٹیاں دینے و دیگر قوانین پر عملد رآمد کرائیںاورروزگار کی فراہمی کیلئے بند کارخانوں کو دوبارہ شروع کرے ۔