پشاور:جامعہ پشاور میں تین روزہ قومی کانفرنس بعنوان جرمیات اور اسکے پس منظر عدالتی اور قانونی عوامل اختتام پزیر ہوگئی ہے.
اختتامی سیشن کے موقع مہمان خصوصی پر پرو وائس چانسلر پروفیسر جوہر علی ، آرگنائزر کانفرنس پروفیسر بشارت حسین سربراہ شعبہ جرمیات جامعہ پشاور ، صوبائی محتسب برائے سدباب ہراسیگی رخشندہ ناز ، چائلڈ پروٹیکشن و ویلفیر کمیشن کے ڈپٹی چیف اعجاز محمد خان نے کانفرنس سے خطاب کیا۔
کانفرنس کے مہمان خصوصی پرو وائس چانسلر پروفیسر جوہر علی نے ملک بھر سے آئے ہوئے مندوبین سے اپنے خطاب میں زور دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جامعات سے الماریوں میں پڑی تحقیق سے استفادہ کیلئے جامعات سے رجوع کریں کیونکہ ترقی یافتہ اور مہذب معاشرے کانفرنسوں اور سیمینار کے ذریعے قومی بیانیہ پروان چڑھاتے ہیں جس کیلئے یہ تین روزہ کانفرنس ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ مندوبین پشاور سے دوسرے صوبوں میں جدید علوم اور پرامن ماحول کا پیغام آکے لے جائیں گے۔
چائلڈ پروٹیکشن و ویلفیر کمیشن کے ڈپٹی چیف اعجاز محمد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
تمام صوبے میں بارہ قائم شدہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کو میڈیا اور کمیونٹی کا تعاون درکار ہے جس سے لوگوں میں بچوں کے حقوق کا احساس اور شعور بیدار ہو۔ انھوں نے بچوں کو جسمانی سزا اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے جانے کیلئے ڈسٹرکٹ سیشن ججز کو با اختیار بنانے کی بابت شرکاء کو بتلایا۔
انھون نے مردان ایبٹ آباد اور پشاور میں قائم چائلڈ کورٹ کی ورکنگ استعداد کا بھی تفصیل سے بتلایا اور شرکاء پر زور دیا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو سماج دشمن عناصر اپنے مزموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں جس کیلئے عام افراد میں شعور بیدار کرنے کی بے پناہ ضرورت ہے جس میں میڈیا اور جامعات کا کلیدی کردار ہے.
کانفرس سے خطاب کے دوران صوبائی محتسب برائے سدباب ہراسیگی رخشندہ ناز نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے خواتین کے متعلق قانون سازی ایک ریکارڈ ہے جو سال 2000 سے لے کر اب تک جاری ہے تاہم قوانین کو معاشرتی اقدار اور عالمی انسانی حقوق میں لانے کی بے حد ضرورت ہے اس موقع پر انھوں نے ایک متبادل قانونی نظام کیلئے پولیس پروبیشن جوڈیشری اور عوام پر مبنی اکائیوں پر مشتمل قانونی نظام کی اہمیت پر زور دیا