طالبات کیلئے عبایا صرف پختونخوا میں کیوں؟وومن ڈیموکریٹک فرنٹ

71749063_487641088484327_942457605907808256_n.jpg

اِسلام آباد: ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی صدر عصمت شاہ جہان نے پختونخوا میں تعلیمی اداروں میں طالبات کے لئے عبایے اور بُرقعے لازمی کرنے کے واقعات پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کئے جا رہے ہیں۔

عصمت شاہ جہان نے کہا کہ یہ واقعات کئے سوالات اُٹھاتا ہے کونکہ اس وقت جب ہمارے خطے میں امن کی تحریکیں پنپ رہی ہیں، اورامریکی وفد اور افغان طالبان پاکستان میں مذاکرات کے لئے آئے ہوئے ہیں، اور جب عالمی دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کے کردار پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور دہشت گردی کے معاملے کو لے کر پاکستان عالمی اور سفارتی تنہائی کا شکار ہے، اِس طرح کی حرکت صرف طالبان اور مذہبی انتہا پسند قوتوں کی خوشنودی کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ خبریں پاکستان کی ریاست کو نہ تو عالمی تنہائی سے نہیں نکال سکتیں ہیں اور نہ ہی پاکستان کے لئے ہمدردی پیدا کر سکتیں ہیں۔ پاکستان کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہونگیں۔

انہوں نے  حوالہ دیا کہ گزشتہ روز رستم، ضلع مردان کے علاقے میں پی ٹی آئی کے ڈسٹرکٹ کونسلز مظفر شاہ نے گورنمنٹ گرلز مڈل سکول چینہ میں برقعوں کی تقسیم کی، اور اِسکی باقاعدہ تصویری پرنٹ اور ایلکٹرانک کو جاری کیں۔ خبر هے که اُن برقعوں کی قیمت سرکاری فنڈ سے ادا ہوئی۔

اِس سے پہلے پی ٹی آئی حکومت نے تعلیمی اداروں میں عبائے لازمی قرار دینے کے کئی نوٹیفیکشن کئے، جو  بعد میں واپس لئے گئے۔

انہوں نے کہا که يه ایک ا نتہائی باریک اور سو چا سمجھا منصوبہ ہے: گاہے بگاہے، کھبی عبایوں کا نوٹیفکیشن اور کھبی برقعوں کے تحفے کی کہانی کوئی خود رو معاملہ بالکل بھی نہیں ہے۔ جب بھی پاکستان کو عالمی پیغام دینا ہو کہ موجوہ سرکار کو پاکستان کے اندر شدید مذہبی انتہا پسند، قدامت پرستی، دہشت گردی اور ثقافتی قدامت پرستی کے گہرے مسائل کا سامنا ہے، تو یا بُرقعے اور عبایے کی نوٹییفیکشن یا بم حملے کروا دیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی ریاست یہ کام پچھلے چالیس سالوں سے یہی کر رہی ہے۔ ورنہ تو لڑکیوں کے سکول میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔

وومن ڈیموکریٹک  فرنٹ کے صدر نے کہا کہ جب پشتون خاندانوں کی لڑکیاں اورعورتیں کی اکثريت ویسے بھی پردہ کرتی ھیں، تو یہ پردہ، عبائے اور بُرقعوں کا کیا ریاستی ڈرامہ کيسا؟ اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ پشتون لڑکوں کو طالبان بنانا، اور لڑکیوں کو بُرقعے اور عبایا لازمي پہنانا بند کیا جائے۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم پختونخوا میں حالیہ جاری کئے گئے کے پی ایکشنز( ان ایڈ آف سول پاور) آرڈیننس 2019 کی بھی شديد مخالفت اور مذمت کرتے ہیں، اور اِسے پختونخوا میں مارشل لاء کے نفاز کے مترادف سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ آرڈیننس فوج کو انٹرمٹنٹ سنٹر چلانے، زمینوں پر قبضے کرنے، تشدد کرنے اور لوگوں کو اُٹھانے کو قانونی قرار دیتا ہے۔ اُنہوں نے اِس آرڈیننس کو فور ی طور پر واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top