دنیا کی ٹاپ 400 یونیورسٹیز میں ایک بھی یونیورسٹی پاکستان سے شامل نہیں

0.jpg

رحم یوسفزئی

پشاور : ہائیر ایجوکیشن کی نااہلی، سیاسی مداخلت یا غیر معیاری تعلیم ، خیبرپختونخوا کی 39 یونیورسٹیوں میں سے ایک نے بھی دنیا کی بہترین ایک ہزار یونیورسٹیوں میں جگہ نہ بناسکی، ٹائم ہائرایجوکیشن نے ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2020جاری کردی جس کے مطابق برطانیہ کی اکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کی پہلی بہترین یونیورسٹی قرار دی گئی جبکہ کیلفورنیاانسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے دنیا کی دوسری بہترین یونیورسٹی کا اعزاز حاصل کرلیا،

11ستمبر کو جاری ہونے والی دی ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں 92ممالک کے 1400 یونیورسٹیوں نے حصہ لیا تھا جس میں 27 ممالک کی صرف ایک ایک یونیورسٹی ٹاپ 200میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی جس میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہے، رینکنگ کے لئے ہر ایک یونیورسٹی کے 13نکاتی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا جس میں ریسرچ، ٹیچنگ، ریسرچ انفلوینس، انڈسٹری انکم، بین الاقوامی تعلقات، نمبرآف ریسرچ سنٹرز، انٹرنیشنل ایم او یو اورنمبرآف اسٹوڈنٹس، اسٹوڈنٹ ٹیچر ریشو، بین الاقومی طالب علم، فی میل ٹو فیل ریشو جیسے کرایٹیریا شامل ہیں.

پاکستان سے 14 جامعات کا موازنہ کیا گیا صرف 5جامعات نے ایک ہزار یونیورسٹیوں میں جگہ حاصل کرلی، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آبادنے ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ میں 401 سے 500 کے درمیان جگہ بنائی، اس کے بعد اسلام آباد ہی کی یونیورسٹی کومسیٹ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ اینجنیرنگ اینڈ اپلائڈ سائنس رینکنگ میں 601 سے 800 کے درمیان جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی, اسی طرح یونیورسٹی آف ایگری کلچر فیصل آباد اور مہران یونیورسٹی آف انجنیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورورینکنگ پر 801سے1000کے درمیان پر موجود ، خیبرپختونخوا میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود 39 یونیورسٹیوں میں ایک بھی دنیا کی ایک ہزار بہترین جامعات میں جگہ نہ بناسکی۔

ماہر تعلیم ڈاکٹر مراد کے مطابق صرف صوبے کا نہیں پورے ملک میں تعلیمی نظام کا برا حال ہے جس طرح حکومت نے دعوے کئے تھے کہ تعلیمی نظام بہتر کیا جائے بلکل اس کے برعکس ہورہا ہے، ان کے مطابق یہاں جامعات میں پروفیسر سے لے کر کلرک تک صرف پروموشن کے پیچھے لگے ہوتے ہیں نئی تحقیق، سیرچ کے لئے گرانٹ کا نہ ملنا، معیار کی بجائے مقدار سے پیپر چھپوانا جیسے بڑے بڑے مسائل نے پاکستان کے یونیورسٹیوں کا معیار گرا دیا ہے جبکہ رہی سہی کسر ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے پوری کردی جس نے جامعات کو ملنے والی گرانٹ پر کٹ لگا دیا۔

ڈاکٹر مراد کے مطابق بدقسمتی سے یہاں نئی ریسررچ کو لوگ ترجیح نہیں دیتے اور نہ ہی ریسرچ میں نئے منصوبے شروع کرنے کا رجحان ہے، ماہر تعلیم کے مطابق دنیا کے ایک ہزار یونیورسٹیوں میں ملک کی یونیورسٹیاں جس پوزیشن پر قائم ہیں یہ صورتحال سنگین اور الارمنگ ہے اگر ایچ ای سی سمیت وفاقی حکومت نے اعلی تعلیم کے معیار پر توجہ نہیں دی تو شائد اگلے سال ملک کی ایک بھی یونیورسٹی ٹاپ ایک ہزار میں جگہ نہ بنا سکے گی۔

یونیورسٹی آف پشاور کی رینکنگ میں جگہ نہ بنانے پر ترجمان علی عمران کا کہنا ہے کہ پشاور یونیورسٹی ایشیا میں ٹاپ 300 میں شامل ہیں لیکن جب ورلڈ رینکنگ کی بات آجائے تو اس میں قائد اعظم یونیورسٹی نے اس لئے ٹاپ پانچ سو میں جگہ بنائی کیونکہ انکے سالانہ ریسرچ پیپزر پبلیکیشن زیادہ ہیں

علی عمران کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی سالانہ 2500 تحقیقی مقالے شائع کرتی ہیں جس میں بیشتر عالمی جرنال میں شائع ہوجاتے ہیں جبکہ پشاور یونیورسٹی سالانہ صرف 600 ریسرچ پیپر شائع کرتی ہے اس میں زیادہ تر لوکل جرنال میں شائع ہوئی تحقیق ہوتی ہے۔

ترجمان کے مطابق پشاور یونیورسٹی کا رینکنگ میں جگہ نہ بنانے پر افسوس ہے مگر یہاں اب اس طریقے سے ریسرچ نہیں ہوتی جبکہ جامعہ پہلے سے ہی مالی بحران کا شکار ہے جسکی وجہ اعلی تعلیم پر اسکا برا اثر پڑ رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top