سیدرسول بیٹنی
پشاور: پختوں سٹوڈنٹس فیڈریشن پشاور یونیورسٹی کی جانب سے طلباء کیلئے "افغٖانستان میں امن کے مذاکرات ” پر سٹدی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔سٹڈی سرکل کا مقصد نوجوان سٹوڈنٹس کو اپنے حقیقی تاریخ اور پشون خطے کے ماضی،حال اور مستقبل میں پیش آنے والے حالات سے باخبر رکھنا تھا۔سڈی سرکل میں پشاور یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات میں زیر تعلیم طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
سٹدی سرکل کے سپیکر اور مہمان خصوصی عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے پروفیسر ڈاکتر زاہد وزیر تھے جنہوں نے افغانستان میں گزشتہ چالیس سال سے جاری خانہ جنگی،عالمی طاغوتی قوتوں اور پڑوسی ممالک کی مداخلت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن یونیورسٹی آف پشاور کے صدر جمشید وزیر نے سٹڈی سرکل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس ایف نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ علمی مباحثے ،سٹڈی سرکلز اور دوسرے ایسے تخلیقی سرگرمیوں میں طلباء کو مصروف رکھیں جس سے وہ اپنے نصابی مطالعے کے ساتھ ساتھ ارد گرد میں رونما ہونے والے حالات واقعات سے بھی آشنا ہو۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان براعظم ایشیاء کے دل کی مانند ہے اگر افغانستان میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تو اس کا براہ راست اثر ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں آباد پشون قوم کے باسیوں پر ہوتا ہے۔جمشید وزیر کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل اب مزید جنگی اقتصاد کو برداشت نہیں کرسکتے لہذا ایک آزاد اور بااختیار افغانستان کو دل سے تسلیم کرنے بعد ہی پورے خطے میں امن اور ثبات آئے گا۔
سٹدی سرکل کے سپیکر ڈاکٹر زاہد وزیر نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ گزشتہ کئی سالوں میں افغانستان نے بہت ترقی کی ہے وہاں اب پارلیمان،صحافتی ادارے،سیکورٹی ادارے اور سول سوسائٹی وجود میں آگئے ہیں جو کافی متحرک بھی ہے اور اردگرد کی حالات پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ مذاکرات میں افغان حکومت جو کہ افغانستان کے اصل فریق ہے کو اگر بالکل سائیڈ لائن کیا گیا تو یہ پوری افغان قوم کے ساتھ زیادتی کا مترادف ہوگا۔
ڈاکٹر زاہد وزیر نے نوجوان طلباء پر زور دیا کہ وہ اپنے نصابی مطالعے کے ساتھ اپنے پشتون خطے کے تاریخ اور آس پاس میں رونما ہونے والے واقعات سے بھی اپنے آپ کو باخبر رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں پائیدار امن اُس وقت آئے گا جب دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضاء قائم ہوجائے اور تمام سرحدی پوائنٹس پر تجارتی سرگرمیاں بحال ہو تاکہ لوگ آپس میں آزادانہ طریقے سے تجارت کرسکیں جس سے دونوں ممالک کے معیشت میں بہتری آئیگی اور امن و خوشحالی سے زندگی بسر کرسکیں گے۔
سٹری سرکل میں شریک شعبہ سوشل ورک کے طالبعلم عبید الرحمان مہمند نے بتایا کہ واقعی یہ سٹڈی سرکل بہت اہمیت کی حامل تھی جس میں افغانستان کے موجودہ حالات پر خوب بحث کی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ میں نے سرکل سے بہت کچھ سیکھ لیا کیونکہ اس میں بہت باریک بینی سے ہمارے پشتون خطے کے میں جاری جنگ کی اغراض ومقاصد پر خوب روشنی ڈالی گئ اور دوسری بات یہ کہ سٹدی سرکل میں یہ ہر ایک طالب علم کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ بلاخوف اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر سپیکر سے سوال پوچھ سکتے تھے جس کو سپیکر بہت توجہ اور سنجیدگی سے سُنتے تھے اور نہایت تحمل سے جواب دیتے تھے۔
پختون سٹوڈنٹس فیڈریش کے صوبائی کلچر سیکرٹری اور شعبہ پشتو کے ایف فل سکالر شوکت سواتی نے پی ایس ایف کی جانب سے ترتیب دی گئی سٹڈی سرکل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں ایسے سرکلز کا اہتمام ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے آزاد مباحثوں میں سٹوڈنٹس روایتی طریقے کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے سیکھ لیتے ہیں کیونکہ اس میں طلباء پر پریشر نہیں ہوتا۔
شوکت سواتی نے کہا کہ باچاخان نے پشتون قوم کو قومیت کا ایک جدید تصور دیا جو کہ علم ، تحقیق اور عدم برداشت پر مبنی تھا اس لئے ہماری نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ قلم اور کتاب کو اپنا ہتیھار بنالیں تاکہ وہ دوسرے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہوسکیں۔
انہوں نے کہا کہ پشتونوں کے پاس اب ایک محاذ رہ گیا پے اور ہے علم اور تحقیق کا محاذ جس سے ہم دُنیا کو بتاسکتے ہیں کہ ہم بشتون ایک پرامن قوم ہے جو کہ تعلیم وتربیت پر یقین رکھتی ہے۔