ڈاکٹر خادم حسین
چھ ستمبر کی روزنامہ شہباز کی خبر ہے کہ لاہور کے علاقے گلشن راوی میں استاد کے تشدد سے دسویں جماعت کا طالبعلم مبینہ طور پر جاں جاں بحق ہو گیا۔ اس سے پہلے پنجاب میں صلاح الدین نامی ایک ذہنی طور پر غیر صحتمند نوجوان کی پولیس حراست میں قتل کی خبر نے سوشل میڈیا ہر کھلبلی مچا دی تھی۔
کچھ لوگ معاشرے میں عدم برداشت اور لوگوں کی بے حسی کی سادہ توجیہ کے ذریعے ان وحشتناک واقعات کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ دونوں عوامل علامات ہیں، اسباب اور وجوہات نہیں۔ یہ باالکل ایسا ہی ہے کہ پیٹ میں درد یا سر درد کو بیماری کی اصل وجہ قرار دی جائے۔ اور یا پھر جسم کو بیماری کے کنٹریکشن کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔
جب ریاست اور ریاستی ادارے معاشرے میں دہائیوں سے فکری طور پر طاقت کا استعمال، جنگی جنون، دشمن بنانے کے جذبات اور ہر مسئلے کا حل فتح کرنے اور شکست دینے کو نصاب میں پڑھانے پر وسائل صرف کرتے رہیں، میڈیا پر ان جذبات کو مقدس بنانے کیلئے پوار ایک نظام فکر تشکیل دے کر مسلسل لوگوں کے ذہنوں میں سرایت کرواتے رہیں اور عملی طور پر قانون کے نفاذ میں برتنے کیلئے ہر قسم کی دھوکہ دہی اور طاقت کے استعمال کا تماشہ روزانہ پیش کرتے رہیں تو اس طرح کے معاشرے میں اور کس قسم کی نفسیات جنم لیں گی؟
پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا پاکستان کے کناروں پر آباد لوگوں، قوموں اور طبقات پر تشدد کو اسی طرح دیکھا جاتا ہے جسطرح مرکزی علاقوں کے لوگوں پر تشدد کو دیکھا جاتا ہے؟ کیا ہماری انسانیت ہمیں اس وقت بھی کچوکے لگاتی ہے جب بلوچستان میں نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کو پھینکا جاتا ہے؟
جب پختونخوا میں لینڈ مائنز دھماکوں سے بچوں کے جسم کے اعضا بکھرتے ہیں؟ کیا ہمارے آنسو اس وقت بھی تھمنے کا نام نہیں لیتے جب سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں نوجوانوں، اساتذہ، اور کارکنوں کو گمشدہ بنا دیا جاتا ہے اور یا پھر ان پر دہشت گردی کے جعلی مقدمات بنا کر ان کو پس زنداں ڈال دیا جاتا ہے؟
جنکا قصور صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے کسی ریاستی جبر کے خلاف پر امن احتجاج کیا ہے۔فرانز فینن اور انتونیو گرامشی نے ریاست کے ساختیاتی تشدد کے ذریعے محکوم لوگوں کے شعور اور نفسیات کی تشکیل کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
انہوں نے یہ حقیقت سامنے لانے کی کوشش کی ہے کہ ریاست کس طرح جبر کے مختلف آلات کے استعمال سے حاکمیت قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کس طرح عام لوگ ریاست کے جبر کے بیانئے کو لاشعوری طور پر اپنا کر اپنا ارادی بیانیہ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔
اس قسم کے ساختیاتی انتظام کے اندر نفسیاتی طور پر عام لوگوں کی شخصیت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ دو رخی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی دو رخی کو جارج آرویل نے ڈبل سپیک کہا ہے۔
پھر عام لوگوں کی اکثریت ایک طرف ریاستی طاقت میں حصہ دار بننے کیلئے ریاست کے ساختیاتی تشدد کا فریم ورک اپنا لیتی ہے اور دوسری طرف اپنے عمل پر شرمندگی محسوس کرتی ہے لیکن یہ شرمندگی بھی امتیازی ہوتی ہے۔
یعنی لوگ اس جبر پر تو شرمندگی محسود کرتے ہیں جس میں ریاست کو براہ راست مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا لیکن اس جبر پر درد اور شرمندگی محسوس نہیں کرتے جس میں ریاست کے براہ راست ملوث ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ ریاست کے جبر سے جنم لینے والا تشدد قانون میں بھی ہوتا ہے اور قانون نافذ کرنے کے عمل میں بھی۔
ریاست کے پیداواری عمل میں بھی ہوتا ہے اور پیداوار کی تقسیم کے نظام میں بھی ہوتا ہے۔ ریاستی بیوروکریسی کے ہائرارکیکل سٹرکچر میں بھی ہوتا ہے اور علم کے پروڈکشن کے نظام میں بھی۔
اس قسم کے ساختیاتی تشدد کے نظام میں جمالیاتی عمل کو سٹگمیٹائز کر دیا جاتا ہے اور سوچنے کے عمل اور سوال اٹھانے کو یا تو بدنام کردیا جاتا ہے اور یا پھر مجرمانہ فعل قرار دیا جاتا ہے۔ ماحول اس طرح بنا دیا جاتا ہے کہ محبت چھپ کر کی جاتی ہے اور جنگ کھلم کھلا کی جاتی ہے۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد کا بنیادی سبب ریاست کا یہی ساختیاتی تشدد ہے۔
ہجوم کے قتل سے لیکر تعلیمی اداروں میں تشدد تک اور پولیس حراست میں قتل سے لیکر ما ورائے عدالت قتل تک ایک ہی سلسلے کی کڑیاں لگ رہی ہیں۔ یہ ایک ہمہ جہت پیچیدہ مسئلہ ہے جسکے ڈانڈے ایک طرف سیاسی حکمرانی سے ملتے ہیں، دوسری طرف وسائل کی منصفانہ تقسیم سے اور تیسری طرف فرد کی انسانیت کو شے تشکیل دینے سے۔
اس قسم کے معاشرے میں جو جتنا اختیار و وسائل کے مرکز اور حصہ داری سے دور ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اسکی انسانیت کی قیمت کم ہو تی ہے۔ اس پورے ساختیاتی تشدد کے نظام کو ٹرانسفارم کرنے کیلئے ہمہ جہت مبارزے کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ مبارزہ فکری طور پر بھی ہوتا ہے، سیاسی طور پر بھی ہوتا ہے، سماجی دائرے میں بھی ہوتا ہے اور ثقافتی دائرے کے اندر بھی۔ طالبعلموں کو شے سمجھنے، تعلیم اور تعلم کو ایک خودکار مشینی عمل سمجھنے اور اس عمل کو ایک ہی شخص کے ذریعے سر انجام دینے کی روایت تشکیل دینے، استاد کو علم کا سر چشمہ سمجھ کر تمام تر انسانی اخلاقیات سے مبرا قرار دینے اور تعلیمی ماحول کو ایک فوجی چھانی بنانے کے کئی خوفناک تتائج نکلتے ہیں۔
فکری، نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی تشدد کو اس طرز فکر میں مقدس بنا دیا جاتا ہے۔ ایجاد و تخلیق کو تو ہر روز قتل کیا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر جسم کے قتل کا وحشتناک نظارہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ اور پھر دردو کرب سے ہماری چیخیں نکل جاتی ہیں۔ ورنہ یہ تعلیمی نظام ہر روز قتل عام کرتا آرہا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کے نصاب، طریقہ تدریس، انتظام، امتحانات کے نظام اور تعلیمی ماحول میں تجسس کا گلا گھونٹنے، سوال کو ممنوع قرار دینے، مباحثے کو جرم قرار دینے اور تخلیق کو لا یعنی سرگرمی کے طور پر متعارف کرانے کو ایک منظم ڈسکورس کی شکل میں نافذ کیا گیا ہے۔
اس نصاب میں بچوں کا ہر ہیرو میدان جنگ میں تلوار چلاتا ہے۔ طریقہ تدریس میں منطق، عقل پسندی اور دلیل کو گناہ قرار دیا جاتا ہے۔ امتحانات میں صرف حافظے کی مشق ہوتی ہے۔ اس نظام میں اچھا بچہ یا اچھی بچی وہ ہوتا ہے یا ہوتی ہے جو کلاس روم کے اندر کم گو ہوتا یا ہوتی ہے۔ جو استاد اور والدین کے ہر منطقی اور غیر منطقی حکم کی بلا چوں چراں تعمیل کرتا یا کرتی ہے۔ جو سوال بالکل بھی نہ کرے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں ڈسپلن کے نفاذ کو ایک اچھی قدر کے طور پر متعارف کروا دیا گیا ہے۔
یہاں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں۔ یہاں ایجادی صلاحیت کو دبایا جاتا ہے اور صرف کمانے والے ہنر اور سکوپ رکھنے والے مضامین کے پڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہاں مشاہدات اور تجربات کرنے کی بجائے رٹنے رٹانے کو علم کے طور پر اپنا لیا گیا ہے۔ اس نظام میں بچوں کی جسمانی، فکری اور جذباتی نشوونما کی بجائے انکو خودکار مشین بنانے پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے۔ کیا کسی بھی نظام میں اس سے زیادہ ساختیاتی تشدد ممکن ہے؟
اسی نظام کے متبادل کے طور پر باچا خان ایجوکیشن فانڈیشن نے تنقیدی شعور کا ماڈل تشکیل دے کر پندرہ سیکنڈری باچا خان سکولوں نافذ کر دیا ہے جہاں فکری، نفسیاتی اور جسمانی تشدد کو تعلیمی ماحول سے نکال باہر پھینکا گیا ہے۔جہاں کلاس روم کے اندر اور باہر استاد اور شاگرد کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے۔
جہاں سائنس، ریاضی اور زبانوں کی تخلیقی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ جہاں وژول آرٹس، پرفارمنس آرٹس، کرافٹس اور فولکلور کے ذریعے جمالیاتی شعور پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جہاں مادری زبانوں اور مارکیٹ کی زبانوں کے ذریعے بچوں اور بچیوں کو دھرتی اور جدید تہذیب کی انسان دوست روایات کے ساتھ فکری اور نفسیاتی سطح پر جوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں بچوں اور بچیوں کو ایک تکثیری، پر امن اور مہذب معاشرے کی تشکیل کے تصور کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔
جہاں بچوں اور بچیوں کو دھرتی کی حکمت اور جدید تمدن کے ساتھ بیک وقت منسلک کر دیا جاتا ہے۔ جہاں تدریس کا طریقہ کار بچوں اور بچیوں کی آزاد سرگرمیوں کی بنیاد پر ہے، تعلیمی ماحول مکمل طور پر تشدد سے آزاد ہے اور تعلیمی انتظام شراکت داری پر مبنی ہے۔
جہاں علم مشترکہ طور ایجاد کرنے کا عمل سمجھا جاتا ہے اور جہاں بچے اتنے ہی مکمل انسان ہیں جتنے اساتذہ اور انکو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جتنے کسی بھی آزاد انسان کو حاصل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر خادم حسین ایک محقق اور تجزیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت باچاخان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔