حکومت کی ناقص کارکردگی،پشاور بی آر ٹی پر لاگت 71 ارب تک پہنچ گئی

31250385_158088184886271_1782267559320485888_n-e1567881453621.jpg

پشاور:پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) نے کہا ہے کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)کی لاگت اب 71 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق ایڈیشل چیف سیکرٹری ڈاکٹر شہزاد بنگش کی زیر صدارت 21 اگست کو پیش رفت کے حوالے سے منعقدہ جائزہ اجلاس میں بی آر ٹی کی لاگت میں اضافہ اور پی سی ون پر نظر ثانی کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔

‘بی آر ٹی منصوبے کی تکمیل کیلئے اب تک کوئی واضح ڈیڈلائن موجود نہیں،6 مہینے میں پورا ہونے والا منصوبہ دو سال سے زائد عرصہ لے چکا، ایشیائی ترقیاتی بینک نے ناقص منصوبہ بندی کی ذمہ داری ٹھیکیدار پر ڈال دی’

اجلاس کے حوالے سے موصول دستاویزات کے مطابق پی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل انجینئر محمد عذیر نے شرکا کو آگاہ کیا تھا کہ بی آر ٹی کی لاگت میں 3 ارب کا اضافہ ہوگیا ہے اور پی سی ون پر نظر ثانی ناگزیر ہوگئی ہے۔

ایڈیشل سیکرٹری(اے سی ایس)نے لاگت میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی سمیت منظوری کے تمام فورمز میں یہ واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ پی سی ون کا جائزہ نہیں لیا جائے گا اور منصوبے کی تکمیل کے لیے وقت میں مزید توسیع بھی نہیں دی جائے گی۔

‘بی آر ٹی پشاور کی بنیادی لاگت 49 ارب روپے تھی لیکن اب تک 21 سے زائد بار منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی جا چکی ہیں، کئی بار فلائی اوورز کو توڑا گیا،ناقص حکمت عملی کے باعث پشاور کے عوام کیلئے یہ منصوبہ دردِسر بن گیا ہے’

خیال رہے کہ اگر پی سی ون پر نظرثانی کی جاتی ہے تو دوسری مرتبہ ایسا ہوگا جب گزشتہ برس کے اوائل میں منصوبے کی لاگت ناقص ڈیزائن کے باعث 68 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی جبکہ بنیادی لاگت 49 ارب روپے تھی۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کے نمائندے کا کہنا تھا کہ جزوی یا عبوری نقصانات کی ذمہ داری ٹھیکیدار پر عائد کی جاسکتی ہے اور یہ فیصلہ پی ڈی اے کا ہوگا۔

پی ڈی اے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جس کے تحت اتھارٹی منصوبے کے کنسلٹنٹ پر جرمانہ عائد کرسکے۔

پی ڈی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ منصوبے کی فنڈنگ ڈالر میں ہوتی ہے اور اتھارٹی نے اضافی لاگت کا تخمینہ لگایا ہے لیکن روپے کی قدر میں کمی ممکنہ طور پر اس کا احاطہ کرے گی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے نئے قرضے کی ضرورت نہیں ہوگی اور خیبر پختونخوا حکومت کو بھی اضافی مالی خرچہ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top