ڈاکٹر خادم حسین
چند سال پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں چوتھی بار متنوع مادری زبانوں کو قومی زبانوں کے طور پر تسلیم کرنے کا بل مسترد کیا گیا تھا۔ اس بل کو مسترد کرنے کیلئے بظاہر دو جواز پیش کئے گئے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ دونوں جواز جو اس بل کو مسترد کرنے کیلئے پیش کئے گے تھے نہ صرف ایک دوسرے کے متضاد ہیں بلکہ منطقی مغالطہ بھی رکھتے ہیں۔
پہلا جواز یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل میں مادری زبانوں کے فروغ کی گنجائش موجود ہے جس سے تمام پاکستانی صوبے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسلئے پارلیمان سے اس بل کو منظور کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ دلیل بادی النظر میں معقول لگتی ہے اسلئے کہ بظاہر یہ دلیل مادری زبانوں کا فروغ رد نہیں کرتی مگر ذرا سی گہرائی میں سوچنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ مفروضہ وفاق کو ریاست کے اندر بولی جانے والی زبانوں کو تسلیم کرنے سے بری الذمہ قرار دیتا ہے۔
جو دوسرا جواز پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف غیر معقول اور تمام تر تحقیق، مشاہدات اور تجربات کے متضاد ہے بلکہ ریاستی بیانئے کے اندر موجود سقم کو بھی بخوبی ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ پہلے ہی تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اسلئے مادری زبانوں کو تسلیم کرنے سے یہ مزید تقسیم ہوجائے گا۔
تنوع اور رنگارنگی کو نہ صرف کائنات اور معاشروں کا حسن تسلیم کیا گیا ہے، یہ زندگی اور کائنات کی بقاء کا مسلمہ اصول بھی ہے۔ انسانی تجربے سے ثابت ہے کہ کائنات میں تغیر، تنوع اور فطری قوانین مستقل اور ابدی ہیں۔
جب کوئی معاشرہ یا ریاست تنوع کو اثاثہ تسلیم کرنے کی بجائے اسکو یکسانیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ریاست اور معاشرے ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اسلئے انسانی تہذیب کے مسلمہ اقدار ہمیں سکھاتے ہیں کہ تنوع اور رنگارنگی اصول فطرت بھی ہے اور اثاثہ بھی۔ کوئی بھی زبان صرف شناخت نہیں ہوتی۔ یہ صدیوں سے انسانی سوچ، احساسات اور حکمت و دانش کی ترسیل کا ذریعہ بھی ہوتی ہے۔
زبان انسان کے اجتماعی حافظے کی ترجمان بھی ہوتی ہے اور انسانی ابلاغ کی نفیس ترین شکل بھی۔ یہ متنوع انسانی تجربے سے کشیدہ حکمت و دانش کا اظہار ہوتی ہے۔ جو معاشرہ یا ریاست حکمت و دانش کے ان متنوع سرچشموں سے سیراب ہونے کا گر سیکھ لیتی ہے اس میں نظم اجتماعی، نظام حکمرانی، پالیسی سازی اور انتظام کی بہتری کا امکان کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
مزید یہ کہ اس قسم کے تکثیریت پسند سماج کے اندر اختلاف رائے کو تسلیم کرنے، رواداری اپنانے اور ملکیت کا احساس دوسرے سماجوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ لسانی، مذہبی، نسلی اور ثقافتی یکسانیت کے بیانئے کی تہہ میں دراصل حکمران طبقات کے ارتکاز وسائل اور ارتکاز اختیار کی خواہش گھات لگارکر بیٹھی ہوتی ہے۔
تنوع تسلیم کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام تر گروہوں، طبقات اور افراد کو اختیار اور وسائل میں شریک کیا جائے۔ حکمران طبقات کیلئے دراصل یہ نتیجہ کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہوتا۔ اسلئے وہ معاشرے کو ‘وحدت فکر’ اور ‘قومی وحدت’ جیسے رومانوی معجون کے نشے میں مبتلا رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
بنظر غائر دیکھا جائے تو تنوع کو تسلیم کرنے سے مشترکات کی طرف بڑھنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ اسلئے یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ متنوع ثقافتی اکائیاں ایک دوسرے کے قریب آجائیں۔ مادری زبانوں کی حیثیت تسلیم کرنے اور انکے فروع سے پاکستان میں اردو کی ابلاغی حیثیت قطعا ًمتاثر نہیں ہوگی۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ اس سے اردو کی ابلاغی حیثیت بڑھ جائیگی۔
اردو کو اسلامیت اور پاکستانیت کا لازم و ملزوم قرار دینا بالکل ایسا ہی ہے جیسے انگریزی کو عیسائیت اور برطانیت کو سنسکرت کو ہندومت اور بدھ مت کا لازم و ملزوم قرار دیا جائے۔ مزید غور کرنے سے واضح ہوجائے گا کہ لسانی یکسانیت کا بیانیہ نہ صرف ارتکاز اختیار و وسائل کے ساتھ جڑا ہے بلکہ یہ بیانیہ شدت پسندی کے بنیادی فکر کے ساتھ بھی قریبی تعلق رکھتا ہے۔
شدت پسند فکر کی پوری عمارت یکسانیت پر کھڑی ہوتی ہے۔ صرف ایک ہی تشریح اور توجیہہ ممکن ہے جس کے لئے قوت کا استعمال جائز ہے، یہی ہے شدت پسندی کا پورا نظام فکر۔ اس فکر کا متبادل تکثیریت اور تنوع کی قبولیت ہے۔
پاکستان میں 60 سے اوپر بولی جانے والی زبانیں قومی زبانیں ہیں جبکہ اردو رابطے کی زبان ہے- اسلیے کہ مسلمہ اصول یہ ہے کہ کسی بھی ریاست میں بولی جانی والی زبانیں اس ریاست کی قومی زبانیں ہوتی ہیں-
وقت آگیا ہے کہ پاکستانی سماج اور ریاست میں لسانی، مذہبی، نسلی، فکری اور قومی تنوع اور تکثیریت کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اس کو منایا جائے۔ تسلیم کرنے اور منانے کی یہ ذمہ داری جتنی صوبوں پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی یہ وفاق پر بھی عائد ہوتی ہے۔
ڈاکٹر خادم حسین ایک محقق اور تجزیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت باچاخان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔