خان زمان کاکڑ
پختونخوا کے نئے اضلاع کے نو منتخب نمائندوں نے اگست کے آخری ہفتہ میں صوبائی اسمبلی میں حلف اٹھا لیا انہوں نے تقاریر میں سابقہ فاٹا کو صوبے کا حصہ بنانے کو تاریخی دن قرار دیا اور حکومتِ وقت سے مطالبہ کیا کہ ان علاقوں میں ستر سال سے جو ننگی اور ساختیاتی ناانصافیاں جاری ہیں ان کو فی الفور ختم کیا جائے اور ان علاقوں کی "ترقی” پر خصوصی توجہ دی جائے حقیقت میں بھی یہ ایک تاریخی دن تھا.
پشتونوں کے درمیان انگریزوں کی کینچھی ہوئی ایک لکیر ربع صدی بعد مٹ گئی اور پشاور سابقہ فاٹا کے ایجنسیزکاایک بار پھر سماجی، ادبی، سیاسی اور ثقافتی مرکز بن گیا جو انگریزوں نے افغانستان سے جبری معاہدوں کے ذریعے علیحدہ کیا تھا انگریز کے نکلنے کے بعد بھی ان علاقوں کو صوبے کی بجائے وفاق کے ماتحت رکھا تھا۔
انگریزوں نے جن کالے قوانین کے ذریعے اس سرزمین کو مستعمرہ بنا رکھاتھا بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان نے بھی ان قوانین کو دوام بخشا اور پورے ستر سال تک پشتون بلٹ کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا ظلم پر ظلم یہ کہ فاٹا کے استعماری نام سے یاد کیے جانیوالے اس پشتون علاقے کے لوگوں کو صرف بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھنے کوبھی کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ اس سرزمین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کیلئے ریاستِ پاکستان نے دہشت گردوں اور سیکورٹی فورسز کے ایک گٹھ جوڑ کے ذریعے ایسی تباہی مچائی جس کی مثال ماضیِ قریب میں پوری دنیا میں نہیں ملتی۔
ایک سماج کی تاریخی اور ثقافتی ساخت و شناخت کو توڑنے کیلئے ریاست نے ظلم و استبداد کے وہ طریقے اپنائے جو ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے خلاف استعمال ہوئے تھے یا جو اسرائیل نے وقتا فوقتا فلسطینیوں کیخلاف استعمال کیے ہیں۔
ایک بڑی منظم پالیسی کے تحت فاٹا کو ایک "سرزمینِ بے آئین” کے طور پر رکھنے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ انگریزوں نے اپنی فارویرڈ پالیسی کے تحت افغانستان کے خلاف اس علاقے کو جس طرح ایک اضافی بفر زون کے طور پر رکھا تھا.
پاکستان بھی اپنی تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے تحت اس علاقے کو افغانستان کے خلاف ایک مورچے کے طور پر استعمال کیا۔ نائن الیون کے بعد طالبان کی سرپرستی کرنے اور ان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کیلئے ریاستِ پاکستان نے عالمی سامراجی اور تیل سے مالامال عرب ممالک کی مدد سے اس علاقے کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے نہ صرف اس علاقے کی شناخت عالمی سطح پر "دنیا کے خطرناک ترین خطہ” کے طور پر ابھری بلکہ وہاں پر بسنے والے لوگ مجموعی طور پر ایک نسل کشی کی صورتحال سے دوچار ہوگئے۔
نسل کشی کی اس صورتحال کے خلاف سیاسی سطح پر ایک تحریک ابھری جو اس علاقے کا صوبہ پختونخوا کے ساتھ انضمام کے ذریعے "قبائلی” لوگوں کیلئے بنیادی آئینی اختیارات کی تحفظ کا مطالبہ کرتی تھی اور عوامی سطح پر اسی مطالبے سے جڑی ہوئی ایک احتجاجی تحریک (پشتون تحفظ مومنٹ) اٹھی جو اس جنگ زدہ علاقے میں فوج اور دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ اور اس کے نتیجے میں ابھرتے ہوئے غیر آئینی ڈھانچے کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرنے لگی۔
اس سیاسی اور عوامی مزاحمت کے پیشِ نظر ریاستِ پاکستان کو بالاخر انضمام کا مطالبہ ماننا پڑا۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ اس سوچ کے تحت کیا گیا کہ اس سے ان علاقے کے باشندوں میں پائے جانیوالے احساسِ بیگانگی میں کچھ کمی آئے گی۔انضمام کے اس عمل میں فوج کے ادارے نے براہ راست مداخلت بھی اس غرض سے کی کہ اس جنگ زدہ پشتون آبادی کے ذہن میں فوج کے خلاف پائی جانیوالی نفرت پر کچھ قابو پایا جاسکے۔
انضمام کی حمایتی سیاسی قوتوں کو پتہ تھا کہ اس ایک آئینی ترمیم سے "قبائلی علاقوں” میں فوج کی جاری پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن اس آئینی ترمیم یا انضمام کی بدولت وہاں پر سیاسی عمل کا آغاز ہوجائے گا جس کی مدد سے ہی فوج اور دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ سے پیدا شدہ غیر آئینی ڈھانچے کے خلاف مزاحمت ممکن ہوپائے گی۔ انضمام کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا۔
عسکری قیادت کی خواہش تھی کہ اس فیصلے کو اتنا موثر ہونے نہ دیا جائے کہ جس سے ریاست کی پالیسی پر کوئی ضرب آئے جبکہ سیاسی قوتوں کا خیال تھا کہ اس فیصلے کو عوام کے حق میں اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کرنا پڑے گا کہ وہاں پرتاریخی طورپر بادشاہت کی شکل اختیارکی ہوئی نوکر شاہی اور فوج اور دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ سے ابھری ہوئی متشدد اور متجاوز مشنری زیادہ دیر تک ٹھرنے کی قابل نہ رہ سکے۔
انضمام کے فیصلہ پر سیاسی اور عسکری حلقوں کے درمیان اس کشمکش کی وجہ سے سابقہ فاٹا میں صوبائی انتخابات کا انعقاد بھی طوالت کاشکار ہوگیا لیکن سیاسی جماعتوں کے پرزور اصرار کی بدولت بالاخر 20 جولائی کا دن اس اعتبار سے تاریخی ٹھرا کہ اس دن تاریخ میں پہلی دفعہ صوبائی انتخابات منعقد ہوئے۔ انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کی منظم مہم حقیقت میں فوج کے غیر آئینی توسیع پسندانہ ڈہانچے پر ایک کاری ضرب سے کم نہیں تھی۔
پشتونوں کی واحد نمائندہ قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے باچاخان، عدمِ تشدد، قومی خودمختاری اور عوام کی حکمرانی کا پیغام ان علاقوں تک بڑے منظم اور موثر انداز سے پرپہنچایا جو علاقے انگریزوں کے وقت سے پشتون قوم پرستوں اور خدائی خدمتگاروں کیلئے "نوگو ایریاز” بنائے گئے تھے۔
پختونخوا کے ان نئے مغربی اضلاع میں انتخابی کمپائن، انتخابات اورمنتخب نمائندگان کی صوبائی اسمبلی میں حلف برداری کا سارا عمل حقیقت میں ریاست کے غیرآئینی توسیع پسندانہ ڈھانچے کے ساتھ ایک کشمکش کی صورت میں سرانجام پایا جوکہ علامتی طور پر ایک بہت بڑی کامیابی ہے جسکو پشتونوں کی جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائیگا لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا ان علاقوں میں پاکستانی ریاست کی ساختیاتی موجودگی پر ان علامتی کامیابیوں اور آئینی تبدیلیوں سے کوئی بڑا فرق پڑے گا بھی؟
سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر فاٹا اور پختونخوا کا انضمام فوج کی بدمعاشی کا راستہ نہیں روک سکا تو اس سے عام لوگوں کے احساسِ بیگانگی میں خطرناک اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ ویسے بھی انضمام کے عمل کو شروع دن سے متنازعہ بنایا گیا ہے۔
اس سیاسی اور پارلیمانی معاملے میں فوج کی طرف سے براہ راست مداخلت کا جو رویہ اپنایا گیا وہ نہ صرف غیر آئینی تھا بلکہ اس انتہائی اہم معاملے کی عوامی مقبولیت میں کمی کا باعث بھی بنا اس لئے کہ انضمام میں فوج کی دلچسپی سے ان لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے جو عرصہ دراز سے فوج کے ہاتھوں مار کھاتے چلے آرہے ہیں۔ حکومتِ وقت اور سیاسی جماعتوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج آج بھی یہ ہوگا کہ انضمام کو کیسے ایک عسکری معاملے کی بجائے ایک سیاسی معاملہ ثابت کیا جائے۔
انضمام کے بعد ان علاقوں ميں بے شک سياسی عمل کيلئے ايک گنجائش پيدا ہوئی ہے ليکن رياست کی طرف سے بهرپور کوشش ہورہی ہے کہ اس گنجائش کو اتنا محدود رکهاجائے کہ جس ميں لوگوں کو پرانے فاٹا اور موجوده ضم شده علاقوں ميں کوئی بنيادی فرق نظر نہ آجائے.
ان ضم شده اضلاع کے سياسی اختيارات کا مرکز اگرچہ اب پشاور بن چکا ہے ليکن انتظامی طور پر يہ علاقے آج بهی راولپنڈی کے ماتحت ہيں. سياسی جماعتوں بالخصوص ان علاقوں کےمنتخب نمائندگان، عوام، پشتون قوم پرستوں اور جمہوری پارٹيوں کو راولپنڈی سے اختيارات پشاور منتقل کرنے کی جنگ لڑنی پڑے گی.
شمالی اور جنوبی وزيرستان سے قومی اسمبلی کے دو منتخب نمائندگان جو انتہائی فعال طور پر انضمام کے عمل کو معنی خيز بنانے کيلئے جدوجہد کررہے تهے اور اپنے علاقوں ميں آئين کی بالادستی چاہتے تهے ان کو کسی اور نے نہيں بلکہ فوج نے جعلی مقدمات ميں سلاخوں کے پيچهے عين اس وقت ڈال ديا جب ان نئے اضلاع ميں پہلی دفعہ صوبائی انتخابات ہونے جارہے تهے. يہ صرف پاکستان ميں ہی ممکن ہے کہ ايک منتخب نمائندے کو اپنے حلقے کا دوره کرنے سے بزورِ کلاشنکوف روکا جاتا ہے اور اس بدمعاشی کو جائز بهی قرار ديا جاتا ہے.
سياسی جماعتوں کی طرف سے مسلسل دراخواستوں کے باوجود ان اسير ايم اين ايز کے پروڈکشن آرڈرز آج تک جاری نہيں ہوپائے اور ان کے ساتھ ہری پور جيل ميں فوج کی تحويل ميں جنگی مجرموں جيسا سلوک روا رکها گيا ہے. ان اضلاع سے اٹهی ہوئی ايک پُرامن احتجاجی تحريک "پشتون تحفظ مومنٹ” کی ايک آئينی التجاء سننے کی بجائے پوری کی پوری رياست اس تحريک کو کريمينلائز کرنے ميں لگی ہوئی ہے اور خڑ کمر ميں اس تحريک کے ايک درجن سے زائد کارکنوں کو قتل کرنے کے بعد اس کے دو سرکرده راہنماؤں سميت درجنوں کارکنان کو گرفتار کيا گيا ہے.
پاکستان ميں ايک نئی اور مختلف قسم کی آواز کو دبانے کی اس پاليسی سے سماج کے اندر ايک خطرناک اکهڑ پن پيدا ہوچکا ہے. يہ ايک عجيب قسم کی رياست ہے جس ميں سياست کی نفی کرنے کا عمل ايک بے مثال حب الوطنی قرار پاتا ہے. پختونخوا کے ان مغربی اضلاع ميں سماجی حرکت کو کرفيو کے نفاذ کے ذريعے کنٹرول کيا جاتا ہے اور سيکوريٹی اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ سے ايک ايمرجنسی کی حالت کو جنم ديا جاتا ہے.
شمالی وزيرستان اب صوبہ پختونخوا کا ايک ضلع ہے ليکن يہ ايک الميے سے کم صورتحال نہيں کہ اس صوبے ميں جس پرائے کی حکومت ہے اس نے شمالی وزيرستان کے خڑ کمر چيک پوسٹ پہ گزشتہ 26 مئی کو پيش آنے والے دلخراش واقعے پر ايک علامتی ردعمل دکهانے کی زحمت بهی نہيں کی اور نئے اضلاع کے نومنتخب نمائندگان اب جس صوبائی اسمبلی ميں بيٹهے ہيں اس اسمبلی ميں خڑ کمر کے واقعے پہ بحث تک نہيں ہوئی.
ہميں يہ حقيقت ذہن نشين کرنی ہوگی کہ انضمام بذات خود ہمارے بنيادی مسئلے کا حل نہيں. ہمارا بنيادی مسئلہ سياسی ہے اور انضمام کے بعد ہمارے لئے ان نئے اضلاع ميں سياست کی ايک گنجائش پيدا ہوئی ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنی قومی خودمختاری کا حصول يقينی بناسکتے ہيں.
ضم شده اضلاع کے نو منتخب پشتون نمائندگان اگر اپنے دورافتاده اور پسمانده علاقوں کی ترقی چاہتے ہيں تو ان کو نظرياتی بنيادوں پر”صوبائی خودمختاری” کی جدوجہد کا حصہ بننا پڑے گا. اگر منتخب شده نمائندگان بلوچستان عوامی پارٹی جيسے ڈمی ٹولے ميں جائينگے تو ان اضلاع کی بدقسمتی ويسی ہی رہے گی جو انضمام سے پہلی تهی.
سياست اور سياسی جماعتوں کو اجازت ملنے کے بعد بهی اگر ان علاقوں ميں آزاد حثيت سے اليکشن لڑنے کی روايت ختم نہيں ہوتی تو چترال سے وزيرستان تک کے پشتون اس سياسی نظم ميں کبهی نہيں آسکتے جس کی توقع انضمام کے ساتھ جُڑی ہوئی تهی. يہ ايک آزاد ممبر کی شخصيت، نظريے اور خلوص کا معاملہ نہيں بلکہ پشتونوں کو ايک سياسی، نظرياتی اور تنظيمی عمل ميں پرونے کا معاملہ ہے.
کيا آج بهی سب سے بڑا مسئلہ يہ نہيں کہ سياسی جماعتوں کو ان ضم شده اضلاع ميں باقاعده "انٹری” کی اجازت نہيں دی جاتی؟ باقاعده سياسی عمل کے نتيجے ميں پشتونوں کی ايک اجتماعی قومی آواز ابهر سکتی ہے جسکو متجاوز رياستی مشنری کبهی بهی برداشت نہيں کرسکتی ليکن اس متجاوز مشنری کا مقابلہ صرف اور صرف منظم تنظيمی اور نظرياتی بنيادوں پر کيا جاسکتا ہے.
کوئی بهی آزاد ممبر فوج کے توسيع پسندانہ اور متجاوز ڈهانچے کے سامنے نہيں ٹہر سکتا. انضمام کے بعد سياسی جماعتيں اب بڑی آسانی سے اس گنجائش کو بروئے کار لاسکتی ہيں جو آئين ميں مختص ہے. ان نئے اضلاع کے مستقبل کا سوال اب پورے ملک بالخصوص پختونخوا ميں سياسی اور جمہوری جدوجہد سے جُڑا ہوا ہے. صوبائی اسمبلی کو اب ايک موثر پليٹ فارم کے طور پر استعمال کيا جاسکتا ہے ليکن اسمبلی کے اندر قبائلی اور غيرقبائلی ممبران کے درميان امتياز کی جو لکير کينچهنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کوشش کو ابهی سے ہی ناکام بنانا پڑے گا.
سارے ممبران کو برابری کی بنياد پر اسمبلی کی کاروائی ميں حصہ لينا ہوگا اور سارے ممبران کو سارے صوبے کے معاملات ميں برابری کی بنياد پر کردار ادا کرنا ہوگا. "قبائل” اور "قبائلی علاقے” جيسے الفاظ کا استعمال ماضی کا کوئی حوالہ دينے کی صورت ميں جائز ہے ليکن ايک مخصوص کٹيگری کے طور پر اس کے استعمال پرمکمل پابندی لگانی چائيے.
وزيراعلی خيبر پختونخوا نے اپنے ايک حاليہ بيان ميں انتہائی قابلِ اعتراض طور پر "قبائلی علاقوں” کا ذکر کيا ہے . انہوں نے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ ملکر کشمير کو فتح کريں گے. پاکستان کے ارباب ِ اختيار کے ذہن ميں ان مغربی اضلاع کا آج بهی وہی استعماری خاکہ ہے جو انہيں انگريز باداروں سے ورثے کے طور پر ملا ہے.
يہ اتنے آندهے بدمعاش ہيں کہ وه انہی علاقوں سے حال ہی ميں جنگ اور تشدد کے خلاف ابهری ہوئی پشتونوں کے مقبول ترين عوامی احتجاج سے بهی کوئی سبق حاصل نہيں کرسکے ہيں. ميں ان اضلاع کے منتخب نمائندگان، عوامی نيشنل پارٹی کے نمائندگان اور باقی جمہوريت پسند اور امن پسند نمائندگان سے درخواست کرتا ہوں کہ وه اسمبلی کے آئنده اجلاس ميں وزيراعلی کے ان منفی ریمارکس کے خلاف بهرپور احتجاج ريکارڈ کريں.
اس کے علاوه نئے اضلاع ميں کرفيو اور سرچ آپريشن کے نام پر جاری جبر و استبداد اور طالبان کی نئی پيش قدمی کے خلاف بهی اسمبلی فلور کو مسلسل استعمال کرنے کی ضرورت ہے. رياست اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کا يہ آئينی اور جمہوری طريقہ کار سماج کے اندر جاری قومی سياسی جدوجہد کو کافی تقويت بخش سکتا ہے.
بشکریہ، روزنامہ شہباز پشاور