ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

fb_img_1470962021520.jpg

ڈاکٹر خادم حسین

12 اگست 1948ء کے بابڑہ کا واقعہ پشتونوں کیلئے ایک عظیم سانحہ ہی نہیں تھا بلکہ نوزائدہ پاکستان میں جمہوری اور آئینی حقوق اور ازادیوں کے استحصال کی تاریخ کا آغاز بھی تھا۔

1948 کے ابتدائی مہینوں میں برصغیر کی آزادی کیلئے اپنی جانیں اور جائدادیں داؤ پر لگانے والی خدائی خدمتگار تحریک کے کارکنوں اور قیادت پر اس قوت کے صوبہ سرحد کی حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ پشتونوں کی اس جمہوری اور عدم تشدد کے اصولوں پر جدوجہد کرنے والی تحریک کے رہبر باچا خان اور صف اوّل کی پوری قیادت کو پس زنداں ڈالا گیا۔

خدائی خدمتگاروں نے اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی کریک ڈاؤن کے خلاف صوبہ بھر میں احتجاجی جلسوں کا منصوبہ بنایا۔ ایک بڑے احتجاجی جلسے کے انعقاد کا اعلان چارسدہ کے علاقے بابڑہ میں بھی 12اگست 1948 کو کیا گیا۔ حکومت نے اس جلسے کو ناکام بنانے کیلئے تمام غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ عام لوگ اور خدائی خدمتگار دور دور سے گیارہ اگست کو ہی مختلف راستوں کے ذریعے چارسدہ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔

12 اگست کی صبح جلسہ گاہ میں لوگوں کی بڑی تعداد امڈ کر آگئی تھی۔ سالار امین جان اس جلسے کی صدارت کر رہے تھے۔ جلسہ جیسا ہی شروع ہو گیا، جلسہ گاہ کے ایک گوشے سے شور کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ جلسہ گاہ کے دوسرے حصوں میں لوگ اس شور سے بالکل بے خبر تھے۔ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آوازوں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اور پھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ لوگ گرتے گئے اور گولیاں چلتی گئیں۔

بقول فدا عبدالمالک ایک طرف حکومت کی توپیں اور مشین گنیں تھیں اور دوسری طرف قوم خالی ہاتھ تھی۔ آس پاس کے دیہاتوں میں خواتین نے گولیوں کی آواز سنی تو قرآن سروں پر اٹھا کر دوڑتی ہوئی آگئیں۔ لیکن گولیاں نہیں رکیں۔ قرآن بھی شہید کئے گئے۔ کئی ایک لوگوں نے جان بچانے کیلئے قریب بہتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگائی اور لہروں کی نذر ہوگئے۔ 600 سے زیادہ کارکن شہید اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوگئے۔

اگلے دن حکومت نے دو اعلانات کئے۔ ایک یہ کہ کسی سرکاری ہسپتال میں زخمیوں کا علاج نہیں کیا جائے گا۔ اور دوسرا یہ کہ چلائی گئی گولیوں کی قیمت چارسدہ کے لوگوں سے جرمانے کی شکل میں وصول کی جائے گی۔ چند دن بعد صوبہ سرحد کے وزیر اعلی قیوم خان نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خدائی خدمتگار تحریک کے منتخب اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ گولیاں ختم نہ ہوتیں تو یہاں بیٹے ہوئے لوگ بھی اب اس دنیا میں نہ ہوتے۔

۱۲ اگست ۱۹۴۸ میں خدائی خدمتگاروں کے پر امن احتجاجی جلسے پر چارسدہ کے علاقے بابڑہ میں گولیوں کی برسات دراصل استعماری تاریخ کے تسلس کا اعلان تھا۔ بابڑہ کے سانحے سے اشرافیہ کو یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ سوچ، اظہار، سیاست، ثقافت، اقتصاد اور معاشرت پر گاڑے ہوئے استعماریت کے پنجے ابھی تک اتنے ہی خونخوار ہیں جتنے برطانوی بادشاہت کی غلامی کے دوران ہوا کرتے تھے۔

بابڑہ کا سانحہ ایک ایسی تاریخ کا تسلسل بھی تھا اور ایک نیا پڑاؤ بھی تھا جس میں انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی زندگیوں اور انکے سیاسی اختیار اور سماجی قوت ارادی کا کنٹرول جائز بھی سمجھا جاتا تھا اور مستحسن بھی۔

بابڑہ کا سانحہ ایک ایسے سیاسی نظم اجتماعی کا اظہاریہ تھا جو لوگوں کی اجتماعی مرضی اور خواہش کے برعکس ان پر تھوپا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے انتظامی ڈھانچے کی عکاسی کر رہا تھا جس میں لوگوں کی سیاسی اور معاشرتی آزادیاں اور انکے معاشی وسائل ان سے چھین لئے جاتے ہیں۔

بابڑہ کا قتل عام پشتونوں کی قومی تاریخ اور پشتنونوں کی سیاسی و جمہوری تحریک کےایک ایسے پڑاؤ کا مظہر ہے جس میں تحریک کے کارکنوں اور قیادت پر واضح ہو گیا کہ اب تحریک کو پشتونوں کو اصل آزادی کے معنی بھی سمجھانے ہونگے اور اصل جمہوری و سیاسی آزادیوں کیلئے نئی حکمت عملی بھی اپنانی ہوگی۔

بابڑہ کا قتل عام باچا خان کے ان الہامی کلمات کا عملی اظہار تھا کہ پشتونوں کو بھیڑیوں کے سامنے پھینکا گیا۔ بابڑہ پشتونوں کی سر زمین کو تاراج کرکے انکی اجتماعی نفسیات کو توڑنے والے ہنوں، یونانیوں، ایرانیوں، عربوں، چنگیزیوں، مغلوں اور فرنگیوں کے ان حملوں کا تسلسل ہے جو جنوبی اور مرکزی ایشیائی خطوں میں سلطنتیں قائم کرنے کیلئے کئے جاتے تھے۔

بابڑہ کا سانحہ ایک واقعہ ہی نہیں یہ پاکستان کے اندر اشرافیت، مرکزیت پسندی اور مطلق العنانیت کی وہ بدروح ہے جو انسان دوستی، قومی مساوات اور جمہوری نظام کا پیچھا کرتی آرہی ہے۔ جہموری تحریک اور قومی مبارزے کی تنظیم کو توڑنے کے کیلئے استعمال ہونے والا یہ حربہ مختلف ادوار میں مختلف جنم لیتا ہوا ابھی تک زیر استعمال ہے۔

لیکن اسکے ساتھ ہی قومی و جمہوری تحریک کی فکر، بیانیہ، تنظیم اور حکمت عملی بھی مختلف سنگہائے میل طے کرتا ہوا چوتھی نسل تک پہنچ گیا ہے۔ اس نسل کے اجتماعی حافظے میں جبر کی یہ پوری تاریخ محفوظ ہے اور جبر کے خلاف جدجہد کرنے کی قوت ارادی بھی موجود ہے۔ اسلئے استعمار نے شکست کھائی ہے اور قومی تحریک رواں دواں ہے۔

کہاں سے آئی نگارِ صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

ڈاکٹر خادم حسین ایک محقق اور تجزیہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اس وقت باچاخان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top