لاچار پاکستانی میڈیا

pakistan-media-and-its-role-in-society.jpg

آفتاب مہمند ، سینئر صحافی

سینئر اینکرپرسن ومعروف صحافی حامدمیر کیجانب سے جاری کردہ کئی بیانات بغور دیکھے ہیں۔حامد میر نے میڈیا پرپابندی اوراظہاررائے کی خاتمے کی کوشش کے بارے جو اقدام لئے ہیں۔ان اقدامات پر حامد میر کو دنیابھرکاسلام۔حامد میر نے گزشتہ روز ایک ویڈیو پیغام میں کہاہے کہ ہمیں جو بھی گرفتار کرناچاہتے ہیں۔مطالبات نہ کیاکریں سامنے آجائیں،مقابلہ کریں گے۔ایک بیان میں حامد میر کہتے ہیں کہ ہماری آواز دبانا آئین پاکستان کی توہین ہے اورجو بھی ایسا کررہے ہیں وہ آئین پاکستان وملک کے دشمن ہیں اور یہی رائے تمام محب وطن پاکستانیوں کی بھی ہے۔

معروف اینکرپرسن نجم سیٹھی نے بھی اظہاررائے پر پابندی اپنے ٹی وی ٹاک شوز میں ایک غیر جمہوری فعل قراردیاہے۔اسی طرح ملک بھر میں میڈیا کی آزادی کیلئے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جگہ جگہ اجلاس بھی منعقد کئے جارہے ہیں،کئی صحافی متحرک ہوتے جارہے ہیں۔میڈیا پر پابندیاں لگانے کی کہانی تو پاکستان میں بہت پرانی ہے لیکن اگر صرف سابق صدر اور جنرل پرویز مشرف کے دورمیں دیکھاجائے تو اس دور میں ملک بھر میں قومی و بین الاقوامی صحافی اغواکئے گئے، کئی صحافی لاپتہ ہوچکے، اسی طرح ملک بھرمیں صحافیوں کو ٹارگٹ کیاگیا،حتیٰ کہ صحافیوں کو دھماکوں سے بھی اڑایاگیا۔

پشاور پریس کلب جو بین الاقوامی طرز کے ایک گوریلا وار کے دوران نہایت اہم اور ذمہ دارانہ صحافتی کردار ادا کرتارہا جیسا کہ صوبہ خیبر پختونخوا دہشتگردی کے حوالے سے ایک فرنٹ لائن محاذ تھا۔ دنیا بھر میں شائد ایسا نہیں ہواہوگا لیکن یہاں ہوا کہ پشاورپریس کلب کو بھی نہ بخشتے ہوئے ایک خودکش حملے کا نشانہ بنایاگیا۔اس زمانے میں دیکھا جائے تو صحافیوں کو دھمکیاں ملتی رہیں،ڈرایا دھمکایاجاتاتھا حتیٰ کہ انکے کالز، فونز وغیرہ باقاعدہ طورپر ٹیپ کئے جاتے تھے۔صحافیوں کی نقل وحرکت پر بھر پورنظریں جمائے رکھے جاتے تھے لیکن ایسا نہیں تھا کہ صحافیوں کی آوازکو بھرپور دبا یا جاتا۔تمام تر مشکلات کے باوجود صحافی لکھ سکتے تھے یا کافی حد تک آزادانہ طورپر اپنی رائے کااظہار کرتے رہے۔

اب جب سے تبدیلی سرکار کی حکومت آئی ہے دیگر ملکی شعبوں کا بیڑہ تو غرق کرچکالیکن ساتھ ساتھ صحافت کا بھی جنازہ نکال دیاگیا۔اگر غورسے دیکھا جائے اب نہ دھمکی مل رہی ہے نہ کسی کوٹارگٹ کیاجاتاہے لیکن صحافت اورمیڈیا اداروں کو بالکل خاموشی کیساتھ اور انتہائی ٹیکنیکل طریقے سے ایسا چھپ کرایاگیاہے کہ کوئی کچھ بھی نہیںکر سکتا۔کمال کی بات، کوئی خوف ہے بھی نہیں لیکن پھر بھی کوئی بھی شخص با ت کرنے یا لکھنے سے قبل دس مرتبہ سوچھتاہے۔ٹی وی ٹاک شوز کو دیکھ کر اینکرز صاحبان بڑے معصوم اور با آدب نظر آتے ہیں۔ماضی میں خاموشی کیساتھ فرائض انجام دینے والی پیمرا کودیکھاجائے، کوئی بھی خبرچل جانے کے بعد کسطرح فوری حرکت میں آجاتی ہے۔ وجہ کیا بنی۔

مردان سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک سنیئر صحافی کہتے ہیں کہ معاملہ تب سے شروع ہوا جب چند میڈیا آرگنائیزشنز پیشے کے لحاظ سے اوپر آگئے۔چند مخصوص لوگوں یا قوتوںکو یہ پسند نہیں تھاکہ میڈیا اتنا پاورفل ہو کہ کل کویہ انکی بات بھی نہ مانے لہذا اسکو کنٹرول کیاجائے۔ ایسے میں ان لوگوں نے سب سے پہلے مالکان کو ساتھ ملوایا۔مالکان نے مجبور ہوکر ایڈیٹوریل اورنیوز سیکشنز میں مداخلت کرکے اسکو کمزور کرادیاگیا۔مالکان نے زیادہ تر معاملات اپنے ہاتھوں میں لئے۔

بعدازاں چند مالکان کو آپس میں لڑوایاگیاجسکے اثرات براہ راست میڈیا انڈسٹری پر آن پڑے اور معاملات تقسیم درتقسیم کیطرف چلے گئے۔ایسا بھی ہوتارہاکہ ایک ٹی وی یااخبار کے مالک کو کال آتی کہ فلاناں رپورٹر کو سمجھاو۔وہی رپورٹر بچارا فوری طورپر نوکری سے سبکدوش کیاجاتا۔ اسی طرح یہ بھی ہوا ہے کہ ایک مالک کو کال آئی اور بیک وقت کئی ملازم فارغ کئے گئے ہیں۔اسکے بعد دیکھاگیاکہ میڈیا میں نان پروفیشنلز لوگ داخل ہوگئے۔ساتھ ساتھ کئی ایسے سرمایہ دار لوگوں نے ادارے کھلوائے جو صحافتی امور کیلئے نہیں اپنی تحفظ کیلئے ہیں، کوئی کسی کاپارٹی تو کوئی کسی کا پارٹی بن گیا۔ ان لوگوں کا صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں۔بہت ساری باتیں ہیں لیکن کئی اوربھی ایسے اقدامات کئے گئے جومحض میڈیا کو گرانے کیلئے تھے۔

ملکی تمام سیاسی جماعتوں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو جب سیلکٹ کیاگیاتو ان کے ذریعے بہت سارے معاملات کنٹرول کرانے ہیں جن میں سے ایک میڈیا بھی ہے جومکمل طورپر پابند سلاسل کیا جارہاہے۔حیرانگی کی بات کہ آج سے چند سال قبل بہت ہی کم صحافی تھے جو یہ نعرہ لگاتے تھے کہ تبدیلی نہیں یہ فراڈ ثابت ہوگی اور آپ ہی کی گلے پڑ جائے گی لیکن بدقسمتی کہ میڈیا مالکان وہ آوازنہیں سنتے تھے اور کل کا کردار آج انہی کے گلے پڑ چکاہے۔صرف سوشل میڈیا ہی ہے جو کسی حدتک وہاں اپنے رائے کااظہار کیاجاسکتاہے۔سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کیجارہی ہے لیکن شائد کثرت سے استعمال کئے جانے کے باعث فوری طور پر کنٹرول کرناممکن نہیں۔

یاد رکھنا چاہیے کہ جائز طریقے سے ہویاناجائز،طاقت ہمیشہ نہیں رہتی۔وہ کام مت کیاکریں کہ کل جب آپ کی چیخیں نکل رہی ہونگی۔مدد کرناتودرکنار پھرکوئی سننے والا بھی نہ ہوجیساکہ دنیاوی نظام بہت جلدی سے بدل جاتے ہیں۔ میڈیا مالکان جو اس وقت بالکل بھی ایک صفحے پر نہیں انہوں نے مزاحمت کی بجائے مالی دباو کے بہیمانہ واردات اپنا کرصرف ورکرز کے خاتمے پر تلے ہوئے ہیں۔

اسی طرح کے اقدامات سے یہ لوگ مزید کمزور پڑتے جارہے ہیں۔بہتر ہوگا کہ میڈیا مالکان،سیاسی قوتوں کیطرح ایک ہوکر حالات کامقابلہ کریں اور ورکرز کو ختم کرنے کی بجائے انکو ساتھ لے کرچلیں جیساکہ یہی ورکرز ان مالکان کی آواز ہے۔اوراگر آج نہیں تواپنا کل کو تو بچاسکتے ہیں اور اگر ایسانہ کیاگیا تو ایک ایک کرکے کھالئے جائیں گے۔جہاں پر احتساب کاتعلق ہے تویہ داغ ضرور ہے،لفافہ جرنلزم، بعض میڈیا اینکرز،مالکان وصحافیوں کے اثاثوں کی چھان بین، مالکان کے سائیڈ کاروباریں،مالکان پر منی لانڈرنگ جیسے الزامات۔میڈیا ورکرزاورمالکان کا بھی بھرپوراحتساب کیاجائے ہم اسکو و یلکم کرتے ہیں لیکن بطور ورکرز پابندیوں اوراوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف حامد میر جیسے جوان زندہ ہیں انکابھرپور ساتھ دیاجائیگا۔

صحافی تنظیمیں تو اس وقت اپنا آوازبلندکررہی ہے لیکن جہاں پر جمہوری قوتوں کا تعلق ہے تو خود سے کہتے ہیں کہ میڈیا کودباکر ہماری آواز قوم تک نہیں پہنچے گی۔قوم کو یاد ہے کہ پچھلی عام انتخابات کے دنوں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک انتخابی مہم کے دوران آزادمیڈیا دو،کانعرہ لگایاتھا۔اسی طرح چیئرمین بلاول بھٹو بھی ہرمیڈیا ٹاکس وخطاب میں آزادمیڈیا اورمیڈیا کے مسائل ومشکلات اجاگر کرتا رہتاہے۔

لیکن اگر کسی نے باہمت قدم اٹھایا تو وہ ہے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان جو کچھ عرصہ قبل پشاور پریس کلب کے باہر ٹھیک ٹھاک مظاہرہ کرکے میڈیا کی آزادی کیلئے ایک موثر آواز بلند کیا۔ اسی طرح ساری اپوزیشن جماعتیں جو کئی ملکی مسائل پرمتحد ہوکر اپنی اپنی جگہ جدوجہد کررہی ہے، کو چاہیے کہ میڈیاورکرزکو ساتھ ملاکرمیڈیاآزادی کیلئے ایک خصوصی تحریک شروع کیاکریں تاکہ میڈیا کو آزاد کرکے انکی آواز بھی قوم تک پہنچایاجاسکے۔

اسی طرح قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان جو اسلام آباد کی جانب حتمی طورپر موجودہ حکومت کے خلاف ملیئن مارچ کریں۔ یقینی بات ہے انکے ہاں ایک جامع پلان ہوگا ساتھ ساتھ انکو میڈیا کی آزادی کا آواز بھی بلند کرناچاہیے۔اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو میڈیا جیساریاستی ستون مزید گر کرنقصان جمہوریت و ملک ہی کا ہوگا۔

آفتاب مہمند ایک سینئر صحافی ہے اور پچھلے کئی سالوں سے  میڈیا سے وابستہ ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top