سیدرسول بیٹنی
اسلام آباد :پاکستان میں زیادہ تر چڑیا گھر احتساب کے فقدان اور خراب گورننس کے باعث تباہ حالی کا شکار ہیں۔جس کی تازہ مثال اسلام آباد چڑیا گھر ہے جہاں حکومت کی طرف سے مناسب توجہ نہ ہونے اور اس کے علاوہ غیر تربیت یافتہ عملہ، سہولیات کے فقدان، صلاحیت اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے وائلڈ لائف اور چڑیا گھر مزید تباہی کی طرف رواں دواں ہیں جس کے باعث پالتو جانور نا پید ہو ہورہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق وائلڈ لائف پارکوں اور چڑیا گھر وں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عام لوگوں کو جانوروں کے حقوق اور ماحول کے لیے ان کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا ہو گی۔
جانوروں اور پرندوں کی اہمیت کے حوالے سے غیر سرکاری ادارہ "پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی” (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام ‘پاکستان میں چڑیا گھر وں کی حالت ‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا،جس میں کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کی سائنٹفک آفیسر بائیو سائنس ڈیپارٹمنٹ کیٹی سپرا، ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ ، بائیو ڈائیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر اعجاز احمد اور ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر عمران خالد نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کامسیٹس یونیورسٹی کی کیٹی سپرا نے جانوروں اور چڑیا گھر کے تحفظ کے لیے تعلیمی پروگرام اور ریسرچ کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں امریکہ میں چڑیا گھروں اور وہاں جانوروں کی دیکھ بال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ جانوروں کا تحفظ کرنا اور مناسب غزا فراہم کرنا ہماری فرائض میں شامل ہیں۔
سینٹر فا ر کلچر اینڈ ڈیویلوپمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرڈاکٹر ندیم عمر تارڑ نے کہا کہ جانور ہیومن ہیبیٹیٹ کا حصہ ہیں اور دوسری سپیشیز کی طرح جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں جن سے عام لوگوں کو آگاہی دینی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ کی کمزوری، احتساب کے فقدان اور خراب گورننس کی وجہ سے ملک میں زیادہ تر چڑیا گھر خراب حالت کا شکار ہیں۔
بائیوڈائیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر اعجاز احمد نے کہا کہ جن جانوروں کی اقسام ختم ہو رہی ہیں ان کو بچانے کے لیے چڑیا گھر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر عمران خالد نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف انسانوں پر بلکہ جانوروںپر بھی منفی طور پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ جس کے لیے حکومت کو کم از کم چڑیا گھروں میں جانوروں کی حفاظت کے لیے بین الااقوامی طرزپر ضروری اقدامات اٹھانے چاہیں۔