سیدرسول بیٹنی
اسلام آباد: چیئرمین نیشنل اسمبلی اسٹینڈنگ کمیٹی لاء اینڈ جسٹس ریاض فتیانہ نے کہا کہ عدالتوں پر کیسوں کا بوجھ کم کرنے کے لئے حکومت پنچائت اور تنازعات کے متبادل حل کے بل کو جلد پارلیمنٹ میں متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متبادل تنازعات کے حل (ADR) کا نظام شفاف، سستا اور فوری انصاف فراہم کرے گا جس سے خاص طور پر خواتین اور کمزور افراد بھرپور فائدہ اُٹھائیں گے۔
ان خیالات کا اظہار انپوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیرِ اہتمام ‘ پاکستان میں خواتین کی انصاف تک رسائی میں حائل رکاوٹیں ‘ کے عنوان سے ایک سیمینار کے دوران کیا۔ اس موقع پر محترمہ خاور ممتاز، سابقہ جج رفعت بٹ اور ایس ڈی پی آئی سے رابعہ منظور نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ریاض فتیانہ نے کہا کہ ملک میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لئے بہت سے قوانین موجود ہیں، جس میں سے کچھ قوانین باقی تمام قوانین کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے جن کو یکجا کرنے ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول اور کریمنل کورٹ کے طریقہ کار میں اصلاحات ہونی چاہیے اور اسلامی نظریاتی کونسل میں زیادہ خواتین ججوں کی نمائندگی بھی ہونی چاہئے، جس سے خواتین کی انصاف تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف وومن کی چیئرپرسن محترمہ خاور ممتاز نے اپنی خطاب میں کہا کہ حکومت کی طرف سے متعارف کرایا جانے والے کسی قسم کا بھی متبادل عدالتی نظام تمام شراکت داروںکی حمایت اور ایک قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک کے تحط ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی انصاف تک رسائی کا مسئلہ ہمای سوچ سے بھی کہیں زیادہ بڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی فیصلہ سازی میں شراکت (خاص طور پر عدالتوں میں)، اقتصادی بااختیاری اور تشدد کی روک تھام کمیشن کی تین اہم ترجیحات ہیں جس سے خواتین کو انصاف تک رسائی حاصل کرنے میں آسانی ہو گی۔
سابق جج اور وکیل رفعت بٹ نے کہا کہ حکومت اور متعلقہ حکام شرعی قوانین اور دیگر مذہبی روایات اور اقدار کی آج کے معاشرتی ضروریات کے مطابق انتہائی جدید تشریح کرے۔ انہوں نے ملک بھر میں مساوی قوانین کو یقینی بنانے کے لئے حکومت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی انصاف تک رسائی سے متعلق بین الاقوامی کنونشنوں کو بھی فوری اپنائے اور ضروری قانون سازی کے بعد جلد لاگو کرے۔
سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ، ایس ڈی پی آئی رابعہ منظور نے کہا کہ صنفی مساوات کی درجہ بندی کے مطابق پاکستان 149 ممالک میں دوسرا سب سے بدترین ملک قرار دیا گیا ہے اور قانون کی حکمرانی کی درجہ بندی میں 126 ملکوں میں سے 117 نمبر پر ہے۔ جبکہ، 2015 میں صرف ایسڈ حملوں میں 65 خواتین کو جلا دیا گیا تھا، 1515 خواتین کی عصمت دری کی گئی اور 713 کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیاجبکہ بہت سے مقدمات ابھی درج بھی نہیں ہوئے۔