سیدرسول بیٹنی
کانفرنس میں شریک مقررین نے کہا ہے کہ سماجی علوم ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں جس کیلئے اعلی تعلیمی کمیشن کو سماجی علوم دوست پالیسیاں وضع کر نا ہونگی ۔
جامعہ پشاور کے شعبہ سوشیالوجی کے زیراہتمام دو روزہ قومی کانفرنس بعنوان “ملک میں علم پزیر اقتصاد اور سماجی علوم کے مسائل اور چیلنجز “کے افتتاحی روز ملک بھر سے آئے ہوئے مندوبین نے اعلی تعلیمی کمیشن پر زور دیا ہے کہ وہ سماجی علوم کو سائنسی علوم کے ہم پلہ نہ سہی لیکن ایک چوتھائی بجٹ دے کر قومی تعلیم دھارے میں کلیدی کردار ادا کرنے میں مددگار بن کرسکتے ہیں.
اس موقع پر بیرون ملک سماجی علوم کی ماہر پروفیسر انیتہ وائس نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان میں وقت آگیا ہے کہ اکادمیہ کی جانب سے معیاری تحقیق کو فروغ دیا جائے جبکہ پاکستان کی جامعات میں طالبات کی تعداد میں اضافہ خوش آئند ہے تاہم ملک میں قدامت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات تشویشناک ہیں تاہم سماجی علوم کے ماہرین کو اس ایشو پر معیاری کام کرنا ہوگا.

پروفیسر ڈاکٹر ناصر جمال خٹک اپنا مقالہ پیش کررہے ہیں
افتتاحی مقالہ جاتی سیشن میں خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ناصر جمال خٹک نے کہا کہ اعلی تعلیمی کمیشن حسابی فارمولوں سے نہیں بلکہ سماجی تناظر سے پروموشن اور جزا کا تعین کرے جبکہ غیر عددی ریسرچ کے زریعے معیارات کا تعین کیا جائے ۔
کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر بہشت آراء نے اپنے مقالہ میں کہا کہ ایمپیکٹ فیکٹر سماجی علوم سے زیادہ سائنسی علوم کو بہتر فریم ورک مہیا کرتا ہے جو ناانصافی ہے تاہم ملک بھر میں صرف چھ ارب روپے کے تحقیق و ترقی فنڈ علوم کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے ۔اس موقع پر ایک اور مقالہ بعنوان “سماجی علوم محاصرے میں “ڈاکٹر نور ثناء الدین نے کہا کہ سماجی علوم کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جارہا ہے جسکی بڑی وجہ طب و انجیرنگ سے تین گنا کم سماجی علوم کی شماری معیار ہے جبکہ سماجی علوم کی نسبت سائنس کلاسز کیلئے طلبہ کا تناسب بھی ایک 18 کے مقابلہ 30 ہے ۔انھوں نے یونیورسٹی اساتذہ پر میڈیا پابندی کی بابت افسوس کا اظہار کیا کہ اب پروفیسر صحافیوں سے ہر بات کی تصدیق کریں گے جو قابل مزمت ہے انھوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ سائنس کی بجائے سماجی علوم کی طرف بچوں کی توجہ مبذول کرائیں.
جامعہ پنجاب کی اسلامک سٹیڈیز کی ڈاکٹر طیبہ رزاق نے کہا کہ جامعات میں اساتزہ سے تدریسی کام کم اور انتظامی کام زیادہ لئے جارہے ہیں جو انکی صلاحیتوں پر بوجھ ہے ڈاکٹر طیبہ نے کہا کہ بی ایس لیول کے ہر سمسٹر میں تحقیق کا مضمون شامل کر کے علم پزیر۔ اقتصاد کو فروغ دیا جاسکتا ہے دو روزہ کانفرنس کے منتظمین ڈاکٹر نور ثناء اور ڈاکٹر سید اویس ہیں کانفرنس کل بھی صبح ساڑھے نو بجے سے سہ پہر جاری رہے گی ابتدائی دن ایک درجن مقالے پڑھے گئے.