ارشد اقبال ناصح،سینئر صحافی اور تجزیہ کار
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال 2023 اور 24 کیلئے 144کھرب 60 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی ا سمبلی میں پیش کردیا ہے۔بجٹ میں نئے ٹیکسز لگانے سے گریز کیا گیا ہے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے 11 کھرب 50 ارب روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے اور ملکی دفاع کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔جب کہ اس بجٹ کا نصف سے زائد حصہ یعنی 7303 ارب روپے سود اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوگا۔ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 9200ارب روپے مقرر کیا گیا ہےجبکہ نان ٹیکس ریوینیو 2963 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے، افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کے لیے تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی صورت میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ گریڈ 1 سے16 کے سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہ میں 35 فیصد اضافہ ہوگا، گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافہ ہوگا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جارہا ہے اور سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن اب 12000 روپے کی جارہی ہے۔اسلام آباد کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار سے بڑھا کر 30 ہزار روپے کیا جار ہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہا کہ ای او بی آئی کی پنشن کو 8500 سے بڑھا کر 10000 روپے کرنے کی تجویز ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان تو کیا گیا لیکن پرائیویٹ کمپنیوں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے کمپنی مالکان کو ہدایات جاری نہیں کی گئیں۔
بلاشبہ پی ڈی ایم کی حکومت نے سخت حالات میں بجٹ پیش کیا ہے ۔جس میں بہت سے ریلیف اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ بعض شعبوں میں ٹیکس اور ڈیوٹیوں میں اضافہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔مجموعی طور ملک کی موجودہ صورتحال میں عوام کیلئے اس سے شائدبہتر بجٹ نہیں پیش کیا جا سکتا تھا ۔گو کہ بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے واضح کردیا ہے کہ یہ بجٹ عوام دوست ہے اور اس کے مقاصد ہرگز سیاسی نہیں ۔ لیکن وزیر خزانہ کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ 2023 انتخابات کا سال ہے اور شائد انتخابات سے قبل یہ پی ڈی ایم کی حکومت کا آخری بجٹ ہو۔مہنگائی نے جس طرح عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے اس کو چند الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔عوام کی انہی مشکلات کے پیش نظر پی ڈی ایم کی حکومت نے ایک بہتر بجٹ پیش کیا ہے ۔حالانکہ گزشتہ سال بھی پی ڈی ایم ہی کی حکومت تھی لیکن بجٹ سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکی تھیں اور شائد حکومت کو معلوم تھا کہ اگر اب بھی یہ عوام کو ریلیف نہیں دیگی تو آئندہ الیکشن میں پی ڈی ایم کی حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتیں کس منہ سے ووٹ کیلئے عوام کے پاس جائیں گی ۔خلاصہ یہ کہ مذکورہ بجٹ کو عوام دوست کہا جا سکتا ہے ۔
بجٹ دستاویزات کو اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندا کہا جاتا ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔اس لئے اس میں عوام زیادہ دلچسپی بھی نہیں لیتے کیونکہ انہیں ہر روز اپنی محدو آمدن کے پیش نظر گھر کا بجٹ بناناہوتا ہے۔ چند سال قبل تک سال میں ایک بار اشیائے خوردونوش اور تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی کی جاتی تھی مگر اب تو ہر دن کے حساب سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ایسے میں حکومت نظر آتی ہے اور نہ ہی انتظامیہ۔پھر بیوپاری اور دیگر مافیا کے سامنے عام لوگوں کریں تو کیا کریں،جائیں تو کہا جائیں۔
بجٹ کو سمجھنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔آسان الفاظ میں اگر ہم بجٹ کو سمجھناچا ہیں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یکم جولائی 2023 سے 30 جون 2024 تک پاکستان کا کل خرچہ 144کھرب 60 ارب روپے ہوگا۔جبکہ کل آمدنی 7536 ارب روپے ہوگی۔اب 14460 میں سے 7536 نکال لئے جائیں تو 6924 ارب روپے بچ جاتے ہیں۔یعنی حالیہ بجٹ میں خسارہ 6924 ارب روپے ہے ۔
اب آتے ہیں کل آمدنی کی جانب ۔یعنی ہماری کل آمدن کا تخمینہ 7536 ارب روپے لگایا گیا ہے ۔ اس میں سے قرضوں کی ادائیگی میں 7303 ارب روپے چلے جائیں گے تو باقی بچے صرف 233 ارب روپے ۔ اور صرف یہ رقم ہمارے پاس اپنی ہوگی۔اب انہی 233 ارب روپے سے دفاعی اخراجات، تعلیم،صحت،تنخواہوں،پنشنز وغیرہ کا انتظام بھی کرنا ہوگا۔
اس کیلئے سب سے پہلے محصولات سے ادائیگیاں آئیں گی جس کا تخمینہ 9200ارب روپے لگایا گیا ہے لیکن گزشتہ سال ٹیکس محصولات کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا تھا ۔اس کے علاوہ اپنے آئندہ اخراجات کو پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑے گا۔ دوست ممالک کےسامنے بھی ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ اور اسی طرح اپنے اخراجات پورے کرنا پڑیں گے ۔
دراصل ہر حکومت میں ہر بجٹ خسارے کا ہوتا ہے اور یہ خسارہ کبھی بھی کم نہ ہو سکا۔ہم نے کبھی چادر دیکھر کر پاوں نہیں پھیلائے اور نہ ہی کبھی اس بارے میں سوچا بھی ہے۔اس لئے آئے روز ہمارے مسائل بڑھ رہے ہیں ۔ملک کو اس وقت زرمبادلہ کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے،فی کس آمدنی خطے کے بیشتر ممالک سے مزید کم ہو چکی ہے۔ایسے حالات میں ایک متوازن بجٹ پیش کرنا قابل ستائش ہے۔