3 پاکستانی فلمیں اور پی ٹی آئی

ARSHAD.png

 

ارشد اقبال ناصح
پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابسطہ معروف ہدایات کار شعیب منصور
کسی تعارف کے محتاج نہیں۔پاکستانی فلم انڈسٹری یعنی لالی ووڈ میں
بہترین فلمیں بنی ہیں اور بن رہی ہیں ۔شعیب منصور کی 3 فلموں
’’بول، خدا کیلئے اور ورنہ‘‘ نے شعیب منصور کو پاکستانی ڈائریکٹرز
میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا ۔ ہم نے صرف ’’بول اور خدا
کیلئے‘‘ فلمیں دیکھ رکھی ہیں لیکن ’’ورنہ‘‘ تاحال نہیں دیکھ سکے۔
شعیب منصور کی مذکورہ 3 فلموں اور پی ٹی آئی چیئرمین میں بہت
مماثلت ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ یہ تین فلیمیں پی ٹی آئی چیئرمین کے
سیاسی کیرئیر پر بالکل صادق آتی ہیں تو غلط نہ ہوگا۔بلاشبہ پی ٹی آئی
چیئرمین کا سیاسی کیریئر صحیح معنوں میں لاہور میں مینار پاکستان
کے جلسے کے بعد شروع ہوا اور اس سے قبل ایک دہائی سے زائد
عرصہ تک پی ٹی آئی ایک مقبول جماعت نہیں بنی تھی تو بالکل غلط
نہ ہوگا ۔یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل
(ر) شجاع پاشا پر پی ٹی آئی کے چیئرمین کی حمایت کے الزامات
لگے اور یہ الزامات لگانے والا کوئی اور نہیں، مسلم لیگ ن کے سابق
رہنما چودھری نثار علی خان تھے۔اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی
حکومت تھی۔2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی حکومت
بنی،نوازشریف وزیراعظم بنے اور چودھری نثار علی خان کو وزارت
داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ۔ چودھری نثار علی خان اپوزیشن میں
تھے تو شجاع پاشا پر پی ٹی آئی چیئرمین کی حمایت کا الزامات
لگاتے رہے لیکن ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو انھوں نے دوبارہ
الزامات نہیں لگائے۔ابھی مسلم لیگ ن کی حکومت کا ایک سال بمشکل
ہی گزرا تھا کہ اگست 2014 میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے مل کر
اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنا شروع کردیا۔اس دھرنے میں پی ٹی

آئی چیئرمین روز کنٹینر پر آتے اور دل میں جو آتا وہ دھرنے کے
شرکا سے شیئر بھی کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر ایک دن پی ٹی آئی
چیئرمین نے کنٹینر پر چڑھ کر اپنے خطاب میں بتایا کہ وہ نیا پاکستان
اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ وہ شادی کرلیں۔ایک دن انھوں نے کہا کہ
امپائر کی انگلی جلد اٹھنے والی ہے اور جب امپائرکی انگلی اٹھے گی
تو ن لیگ کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی چیئرمین سے جب
بھی انٹرویو میں امپائر کے نام بارے پوچھا گیا تو انھوں نے نہیں
بتایا۔دھرنوں میں پھر وہ وقت آیا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل
راحیل شریف نے پی ٹی آئی چیئرمین کو ملاقات کیلئے بلایا تو وہ
خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔126 دنوں کے دھرنے میں پی
ٹی آئی چیئرمین اپنی جماعت کےکارکنوں کو صرف یہی سکھاتے رہے
کہ اپنے حق کیلئے بولیں اور آواز اٹھائیں۔چاہے اس کیلئے حکومت کے
خلاف سول نافرمانی کی تحریک کی شکل میں ہو یا پھر تضحیک آمیز
گفتگو ہو،چاہے اس کیلئے مخالفین پر سنگین الزامات لگانے ہوں یا پھر
مسجد نبوی (ص) میں مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے خلاف
نعرہ بازی ہو۔وہ اپنے کارکنوں کو یہی سکھاتے رہے کہ ہر صورت
میں اور ہر جگہ پر بولنا ہی ہے ،کچھ بھی بولیں لیکن بولتے رہیں۔پی
ٹی آئی چیئرمین اپنے کارکنوں کو اپنی زبان دینے کی ناکام کوشش
کرتے رہے اور کئی سال تک اپنے کارکنوں کی تربیت ایسی کی کہ
انتہا پسندوں کی طرح وہ صرف اپنی سناتے ہیں اور دوسروں کی بات
کو سننے کیلئے وہ کسی صورت تیار نہیں رہتے ۔ یہاں تک کہ جب ان
کے پاس دلیلیں ختم ہوتی ہیں تو وہ مار پیٹ پر اتر آتے ہیں۔ کارکنوں
کی اتنی ’’زبردست تربیت ‘‘کرنے کے بعد ظاہر ہے پارٹی چیئرمین کو
محسوس ہوا کہ اب وہ وزیراعظم ضرور بننے والے ہیں لیکن پھر بھی
وزیراعظم نہ بنے تو اداروں کے پاوں پڑنا شروع کردیا ۔
‘‘بول‘‘ کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین پھر یہاں تک کہتے رہے کہ ’’خدا
کیلئے‘‘ ایک بار ،صر ف ایک بار ان کو وزیراعظم بنادیا جائے ۔چاہے
اس کیلئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ختم ہی کیوں نہ کرنا

پڑے،ان کے تمام رہنماوں کو دنیا بھر میں بدنام کیا جائے تاکہ وہ کسی
سے آنکھیں ملانے کے قابل نہ رہے، تمام ملکی ادارے بھی اپنے
مخالفین کے خلاف استعمال ہوجائیں تو بھی ٹھیک ہے ۔بالآخر پی ٹی
آئی چیئرمین 2018 کے متنازعہ ترین انتخابات کے بعد وزیراعظم بن
ہی گئے لیکن پھر بھی چھین نہیں آیا ۔
اپنے پونے چارسالہ دور اقتدار میں اور کچھ کیا یا نہیں ،یہ الگ
موضوع ہے لیکن ایک کام ضرور کیا اور وہ یہ کہ مخالفین کے خلاف
اداروں کو متحرک کیا ،جھوٹے کیسز بنوائے ،مخالف سیاسی جماعتوں
کے رہنماوں کو جیلوں میں ڈالا، دھمکیاں دیں،اداروں کے سربراہان
اور اسٹیبلشمنٹ کا خوب استعمال کیا ، اپنے کارکنوں کو سوشل میڈیا پر
مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے استعمال کیا،مخالفین کے رہنماوں
کی تقاریب میں اپنے کارکنوں کو شامل کیا اور نعرہ بازیاں کروائیں
۔جب معلوم ہوا کہ ان کی حکومت کے پیر بھی صابن پر ہیں اور جلد
ختم ہونے والی ہے تو امریکہ،آرمی چیف،سیاسی مخالفین اور معلوم
نہیں کس کس پر الزامات کی بوچھاڑ کردی،رجیم چینج کا ڈرامہ رچایا
اور شعیب منصور کی فلم ۔۔۔ورنہ ۔۔۔ہی کی طرح دھمکیوں پر اتر آئے
۔اور پھر 9 اور 10 مئی کو ملک کی سرکاری اور فوجی تنصیبات پر
حملوں کیلئے کارکنوں کو استعمال کیا تو ۔ شعیب منصور کی فلموں کی
طرح اپنے کارکنوں کو پہلے ’’بول‘‘ کی تربیت دی، پھر ’’خدا کیلئے‘‘
منتوں پر اتر آئے اور آخر میں ورنہ پر قصہ ختم۔ بول، خدا کیلئے اور
ورنہ کے بعد اب پی ٹی آئی چیئرمین زمان پارک میں سیاسی تنہائی کا
شکار ہو چکے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top