پی ٹی آئی کےبکھرنے کی چند وجوہات!

ARSHAD.png

ارشد اقبال ناصح ،سینئر صحافی و تجزیہ کار

تحریک انصاف کے بکھر جانے کی وجوہات کی تفصیل بہت لمبی ہے ۔ پی ٹی آئی کے بکھرنے کا آغاز اسی دن ہو گیا تھا جس دن عمران خان کی ہدایت پر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے انکار کیا گیااور پھراس تحریک پر ووٹنگ نہ ہونے کیلئے قانون اور آئین کی دھجیاں اڑانے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجنا بھی بڑی وجہ تھی جس کا اظہار خود صدر مملکت بھی کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی مگر دوسری سیاسی جماعتوں سے مختلف بھی تھی کہ یہ ون میں شو تھی ۔ خان صاحب جو ،جب اور جیسے چاہتے تھے ویسے ہوتا رہا،اگر کسی رہنما نے کبھی خان صاحب کو مشورہ دیا تو وہ فارغ ہوا اور پھر کسی نے مڑ کر اس کو پوچھا تک نہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی ایم کیو ایم ہی کی طرح ایک پارٹی تھی تو بالکل غلط نہ ہوگا۔

بیشتر دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی زوال کا سامنا کیا ہے اور بعض اب بھی کر رہی ہیں لیکن جو حال چند دنوں میں پی ٹی آئی کا ہوا ہے ایسی مثال ملکی  تاریخ میں نہیں ملتی۔عمران خان نے خود پی ٹی آئی کو بڑی پارٹی بنایا (اس بحث میں پڑنے کی ضرورت بالکل نہیں کہ کیسے بنایا )لیکن اس کو بکھرنے کا سارا کریڈٹ بھی عمران خان کو ہی جاتا ہے۔کسی بھی پی ٹی آئی کارکن سے سادہ سا یہ سوال کریں کہ پی ٹی آئی میں کیا خاص ہے تو وہ صرف یہی کہہ سکے گا کہ ان کا لیڈر پرکشش ہے اور بس۔پی ٹی آئی کا صرف ایک ہی نظریہ تھا کہ اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں تھا ۔بھلا یہ بھی کوئی نظریہ تھا کہ صرف میں وزیراعظم رہوں گا۔

صرف پی ٹی آئی اقتدار میں رہے گی، پی ٹی آئی کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما کرپٹ ہیں،ملک کی تمام مذہبی جماعتیں مذہب کارڈ استعمال کرکے لوگوں کو بے وقوف بناتی ہیں،تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا ہے،ان جماعتوں کے قائدین کے بچے اور جائیدادیں ملک سے باہر ہیں،یہ جب بھی بیمار ہوتے ہیں یہ بیرون ملک  سےاپنا علاج کرواتے ہیں،تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں،وغیر ہ وغیرہ ۔اگر باقی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ  کی پیداوارہیں تو خود عمران خان بھی تو اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر سوار ہوکر وزیراعظم بنے تھے ۔اگر دیگر جماعتوں کے رہنماوں کے بچے ملک سے باہر ہیں تو خان صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی تو لندن میں جمائما کے پاس ہیں،خان صاحب کو  جیسے ہی فیضیابی بند ہوئی تو وہ فورا سے بھی پہلے وزیراعظم کی کرسی سے دھڑام کرکے نیچے آ گرے اور ایسے گرے کہ ان کو خود سمجھ نہیں آئی کہ ان کےساتھ  آخرہوا کیا ہے۔

تلخ لب و لہجہ،جارحانہ طرز  سیاست،دوسروں کو نیچا دکھانے اور گرانے کی کاوشیں اور اس کیلئے اداروں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال ،اپنے کارکنوں کو صرف یہ سبق سکھانا اور باربار یادکروانا کہ پاکستان بھر میں صرف عمران خان ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں،پارٹی چیئرمین کی کسی بات سے اختلاف رکھنے پر پی ٹی آئی کارکنوں کا ہاتھا پائی پر اتر آنا،جگہ جگہ مخالفین کی محفلوں میں کارکنوں کو داخل کرواکر مخالفین کو گالیاں پڑوانا ،یہاں تک کہ بیت اللہ شریف میں بھی مخالفین کے خلاف شدید نعرہ بازیوں کی منصوبہ بندی کرنا جیسے عوامل نے پارٹی کارکنوں کو الگ تھلگ کردیا لیکن سکون پھر بھی نہیں آیا،چین پھر بھی نصیب نہ ہوا۔

9 مئی کے واقعات کے بعد پہلی ہی فرصت میں پی ٹی آئی کارکنوں اور رہنماؤں کوشدت سے احساس ہوگیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہی ملک اور اس کے غریب لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہے،لیکن انتظار اس بات کا کر نا کہ اگر بات بن گئی تو ٹھیک نہیں تو پتلی گلی سے نکل جائیں گے،یہ تو ان کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا سب کچھ بھی ہوگا،اور یہ اس لئے کہ چیئرمین سمیت یہ سارے طاقت اور نام نہاد عوامی شہرت کے نشے میں دھت تھے،کارکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ پارٹی چیئرمین ہر بات پر یوٹرن لیتے ہیں،پوراسچ تو بولتے ہی نہیں، آدھی بات کرتے ہیں،کوئی غلط بات کربھی دی تو فورا یوٹرن لے لیا اور کارکنوں نے اس کو صحیفہ بناکر پیش کرنا تھا کہ ان کا چیئرمین تو سچا ہے اور اسی لئے تو ان کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین جو قرار دیا ہے ،لیکن  عدالت عظمیٰ کی جانب سے دیا گیا گیا صادق اور امین کا لقب بھی تو ادھورا نکلا۔اس کیلئے تو کارکنوں کی تربیت ہی ایسی کی گئی تھی کہ ہر بات پر یوٹرن لینا درست عمل ہے اور مخالفین کے خلاف یہی تو خان صاحب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور اسے استعمال کرنا ایک مقدس عمل ہے۔

عمران خان سمیت پی ٹی آئی میں باقی رہ جانے والے درجن سے بھی کم رہنماؤں اور کارکنوں کو اب کی بار سوچنا چاہیے کہ اگر ملک کی خدمت کا جذبہ لئے مزید اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو سب سے پہلے اپنا طرز سیاست تبدیل کرنا ہوگا،ڈکٹیٹر شپ اور میں کی سوچ کو نکال باہر کرنا ہوگا،دوسری سیاسی جماعتوں کی عوام میں مقبولیت کو قبول کرنا ہوگا،یہ سوچ نکال باہر کرنا ہوگی کہ اس ملک میں صرف ون میں شو ہوگا،اگر ایک سیاسی جماعت کی عزت و تکریم ہے تو اتنی ہی دوسری سیاسی جماعتوں کی بھی ہے۔

خود کو اور اپنے کارکنوں کو دوسروں کی تنقید اور برداشت کرنے کی صلاحیت کی تربیت کرنا ہوگی،خود کو تحمل کا سبق پڑھا کر اپنے کارکنوں کو اس کی تربیت دینا ہوگی،گالم گلوچ ترک کرکے نرم لہجہ اپنانا ہوگا،دوسری جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا،ریاستی اداروں کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کی روش کو چھوڑنا ہوگا اوراداروں کی جانب سے انکار کی صورت میں اپنے ہی اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوششیں چھوڑنا ہونگی،حقیقت میں میرٹ کا بول بالا کرکے قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ کرنے سے گریز کرنا ہوگا، پارٹی کارکنوں کی طرح دوسری جماعتوں کے کارکنوں کا احترام بھی کرنا ہوگا اور اپنے کارکنوں کو اس کا سبق بھی پڑھانا ہوگا ۔اداروں سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کی سوچ کو بھی دفن کرنا ہوگا،پونے چار سال کی حکومت کے بعدوزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد اب تک جو جو کوتاہیاں ،غلطیاں اور گناہ ہوئے ہیں اس پر پوری قوم،سیاسی جماعتوں،ریاستی اداروں  سے معافی مانگنی ہوگی۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو مستقبل میں آ پ کی سیاست کا خدا حافظ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top