پشاور میں شہد کا کاروبار اور اس سے جڑے مسائل!

ARSHAD.png

ارشد اقبال ناصح ،سینئر صحافی و تجزیہ کار

پوری دنیا میں ہر سال 20 مئی کو  شہد کا عالمی دن منایا جاتا ہے،پاکستان بھر میں یوم شہد گزشتہ پانچ سالوں سے منایا جا رہا ہے اور رواں برس بھی 20 مئی کو پشاور سمیت پورے پاکستان میں شہدکایہ دن منایا گیا۔باقی دنیا میں2009 یعنی گزشتہ 14 سال سے 20 مئی کو شہد کے عالمی دن کیلئے مختص کیا گیا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد پاکستان میں شہد کے کاروبار کو فروغ دینا اور شہد اور شہد کی مکھیوں کے مسائل پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ایشیا کی سب سے بڑی شہد کی منڈی خیبرپختونخوا کا دارالحکومت پشاور ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں شہد کے کاروبار کو حکومتی سطح پر وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا وہ حقدار ہے، یہی وجہ ہے کہ شہد کے کاروبار سے وابستہ تاجر آج حکومت کو درپیش مسائل سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں لیکن کوئی بھی ان کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں کر رہا۔

پشاور میں شہد کی مکھیوں کے کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کے مطابق پاکستان میں شہد کے کاروبار سے کم از کم کم و بیش ایک کروڑ پچاس لاکھ افراد وابستہ ہیں اور پاکستان میں سالانہ 30 سے ​​35 ہزار ٹن شہد پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان سے زیادہ تر شہد عرب ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اور دیگر ممالک کے لوگ بھی پاکستانی شہد کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔

شہد کی مکھیوں کے ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شہد کے کاروبار میں کچھ مسائل درپیش ہیں جن کی روک تھام بہت ضروری ہے جس سے نہ صرف کاروبار کو مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے بلکہ اس کاروبار سے وابستہ افراد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ جنگلات کی کٹائی ہے، حکومت شہد کی مکھیوں اور شہد کی پیداوار بڑھانے کے لیے فوری طور پر جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگائے۔

شہد کی مکھیوں کے ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کے مطابق گلوبل وارمنگ یا تو موسم کو بہت زیادہ سرد یا بہت گرم کر دے گی جس کے شہد کی مکھیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ان کی پیداوار میں کمی آئے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ درختوں اور پودوں پر زہریلے سپرے بھی کیے جاتے ہیں جس سے پھولوں کی زندگی کم ہو جاتی ہے اور اگر پھولوں کی زندگی کم ہو جائے تو ظاہر ہے کہ شہد کی مکھیاں اتنی مقدار میں شہد پیدا نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے درخواست کی ہے کہ جنگلات کی کٹائی پر پابندی کے ساتھ فصلوں اور پودوں پر زہر کا سپرے کرنے پر بھی پابندی لگائی جائے۔

شہد کی مکھیوں کو دیگر مکھیوں کے مقابلے میں معتبر(زبرگی)مکھیاں سمجھا  جاتا ہے اور شہد کو انسانی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔انسانوں کی صحت سے متعلق شہد کی اہمیت پر قرآن حکیم میں بھی اللہ تعالیٰ نےمتعدد بار ذکر کیا ہے

وقت کا تقاضا ہے کہ اس کاروبار کو بہتر کیا جائے اور اس میں پیدا ہونے والے مسائل کو ختم کیا جائے۔ نہ صرف اس کاروبار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے بلکہ خالص شہد کی پیداوار پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائیں اور شہد کی مکھیوں کے کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کے ساتھ فوری طور پر میٹنگ بلائیں تاکہ نہ صرف ان کے مسائل کا خاتمہ ہو بلکہ ملک میں شہد کے کاروبار اور پیداوار میں بھی اضافہ ہو سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top