مذاکرات ہونے چاہئیں ۔۔۔مگر!

ARSHAD.png

ارشد اقبال ناصح ،سینئر صحافی و تجزیہ کار

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر وفاقی حکومت سمیت کسی سے بھی مذاکرات کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس کیلئے 7 رکنی ٹیم بھی تشکیل دیدی ہے۔عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی یہ پیشکش ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب پی ٹی آئی کے 50سے زائد اہم رہنماوں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے 9مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی وہ پارٹی ہی نہیں جس میں  انھوں نے شمولیت اختیار کی تھی۔

پی ٹی آئی چھوڑنے والے بعض رہنماوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے عمران خان سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو کئی بار مشورے دیئے کہ ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی  کسی کے مفاد میں نہیں لیکن عمران خان نے ایک نہ سنی۔دوسری جانب  وفاقی حکومت نے عمران خان کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات  مریم اورنگزیب نے کہا کہ دہشتگردوں اور سرکاری املاک پر حملے کرنے والوں سے کسی صورت مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے بھی ٹویٹر پر اپنے پیغام میں عمران خان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ دہشتگردوں اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں سے کسی صورت مذاکرات نہیں ہونگے۔ جبکہ  وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کے ساتھ مذاکرات مشروط کردیئے ہیں ۔وفاقی وزرا نے کہا کہ پہلے عمران خان 9مئی کے واقعات پر پوری قوم، پاک فوج اور شہدا کے اہل خانہ سے معافی مانگیں اس کے بعد مذاکرات ممکن ہو سکیں گے ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ  9 مئی کو ملک بھر میں سرکاری املاک اور آرمی تنصیبات پر حملوں، شہدائے وطن کی یادگاروں کی بے حرمتی ،جناح ہاوس لاہور اور پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلانے  کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑ نے والے رہنماوں کو دیر آئد درست آئد کے مصداق عقل آگئی ہے کہ ان سے کتنی بڑی غلطی ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اب عمران خان بھی کارکنوں کو بھڑکانے پر پوری قوم سے معافی مانگیں اور تسلیم کریں کہ ان سے اور پی ٹی آئی کارکنوں سے غلطی ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن انا اور ایگو کی تسکین کی خاطر اپنی غلطی پر ڈٹے رہنے سے انسان بڑا نہیں بنتا بلکہ اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انسان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا ہے۔

بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جس طرح پی ٹی آئی کو چھوڑنے والوں کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہوا ایسے ہی عمران خان کو بھی احساس ہونا چاہیے ۔یہ معاملہ کسی ایک شخص یا کسی ایک پارٹی کا نہیں بلکہ یہ ملک و قوم کا معاملہ ہے اور ملک و قوم کیلئے یہی بہتر ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین اب معافی مانگ لیں ۔عمران خان کی جانب سے دبے الفاظ میں ان واقعات کی مذمت کرنا کافی نہیں ہوگا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت کے بعض وزرا پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں ۔کسی سیاسی جماعت پرپابندی لگانا اتناآسان نہیں۔ماضی میں بھی کئی پارٹیوں پر پابندی کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن کسی پارٹی پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ماضی قریب میں ایم کیو ایم پر بھی پابندی لگانے کا معاملہ اٹھا تھا لیکن پھر اسی پارٹی میں سے ایم کیو ایم پاکستان  کے نام سے نئی پارٹی بن گئی اور ایم کیو ایم لندن کے سربراہ کا معاملہ قصہ پارینہ بن گیا ۔

دوسری طرف  عمران خان کو زمان پارک لاہور کی رہائش گاہ پر نظر بند کرنے کی خبریں بھی گردش کرنے لگی ہیں۔ایک نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ وفاقی حکومت کو عمران خان کو گرفتار کرکے ان کو اپنی رہائش گاہ پر نظر بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔خبر ایجنسی کے مطابق  عمران خان کی تقاریر اور ان سے ملاقاتیوں پر بھی پابندی عائد کی جائے گی اور عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا جائے گا ۔

بلاشبہ 9 مئی  کو ملک بھر میں پی ٹی آئی کے شرپسندوں نے جو کچھ کیا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔خود کو سیاسی جماعت کہنے والی پارٹی کے کارکنوں سے ایسے حملوں کی توقع کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ان حملوں میں ملوث وہ کارکن جو گرفتار ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف کارروائیاں شروع کی جا چکی ہیں ۔اب ان کے رشتہ داروں کے پیغامات سوشل میڈیا پر آ رہے ہیں ۔وہ اب اپنی پارٹی کے رہنماوں کے روئیوں پر روتے ہیں لیکن کوئی بھی ان کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں۔گرفتار کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے چیئرمین نے بھی ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے  اگر عمران خان  وفاقی حکومت سے مذاکرات کی حامی بھر چکے ہیں تو وفاقی حکومت کو بھی دل نرم کرکے مذاکرات کرنے چاہیئں ۔ہاں وفاقی حکومت کا یہ مطالبہ کہ عمران خان معافی مانگیں ،ہم خود بھی اس کے حامی ہیں کہ عمران خان معافی مانگیں ۔یہ ضرور ہونا چاہیے کہ 9 مئی کو ہونے والی تخریب کاری میں ملوث تمام پی ٹی آئی کارکن اور ان کے پیچھے کارفرما کرداروں کو بے نقاب کرکے سخت سزائیں دی جائیں ۔ نوجوانوں کو ورغلانے والے اصل کردار بھی قوم کے سامنے آنے چاہیئں۔اگر عمران خان قوم سے معافی مانگتے ہیں ، اپنے کئے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیشہ کیلئے اپنی جارحانہ پالیسیوں اور روش کو ترک کرنے کا عزم کرتے ہیں  تو مذاکرات میں کوئی حرج نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

scroll to top