تحریر:محمد الیاس
پاکستان میں احساس ذمہ داری کا فقدان ایک ناقابلِ فہم مسئلہ ہے جس سے ملک کی ترقی کے راستے پر بہت سی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو عوام اور حکومت دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ ذمہ داری کا احساس ایک مثبت اور اہم اعتقاد ہے جو ایک فرد کو اس کے کردار اور فعالیوں کے لئے جواب دینے کی ضرورت کو بتاتا ہے۔
ذمہ داری کا احساس ایک شخص کے اندر کی توانائی کو جگہ دیتا ہے اور اسے ایک متحمل اور سمجھدار شخص بناتا ہے جو اپنی زندگی میں اور اپنی محیط میں دیگر لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ یہ احساس بہت ہی اہم ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ذمہ دار نہیں ہوگا تو وہ اپنی زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس کے علاوہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ پاکستان کے بارے میں بھی جانا جاتا ہے کہ وہ ایک مسلمان ملک ہے اور ہمارے معاشرے میں ذمہ داری کے لئے سمجھایا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس، ذمہ داری کے لئے بنایا گیا نظام اس کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ایک جانب، عوام میں ذمہ داری کے احساس کی کمی کے وجوہات بہت سے ہیں۔ اگر آپ پاکستان میں کسی بھی علاقے میں جائیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عوام اپنے کاموں کے لئے سہی طریقہ کار نہیں بناتے۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی یا عوامی سطح پر تربیتی پروگرام ترتیب دیے جائیں جن سے عام عوام کو ذمہ دار شہری بنایا جاسکے۔ تعلیمی نصاب میں معاشرتی علوم کا ایک مضمون رکھا تو گیا ہے مگر اس میں ادھر ادھر کا جغرافیہ، نمک کی کانوں، کچھ جنگی وارداتوں، قومیت کے جذبات اور قائد اعظم کے چودہ نکات کی تکرار کے علاوہ کچھ نہیں۔ قومی ٹی وی پر بھی بنیادی شہری ذمہ داریوں کی ترغیب اور آگہی دی جاسکتی ہے۔
لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی ہیجان خیزی کبھی ماند ہی نہیں پڑتی۔ اقتدار کے ایوانوں میں چیرہ دستیوں اور ہیراپھیریوں کا بازار سدا گرم ہی رہتا ہے اور کسی طور اس سے فرصت نہیں مل پاتی۔ ہمارے ادیب بھی ان خشک موضوعات پر قلم اٹھانے سے کتراتے ہیں۔ محبوب کے عارض و گیسو، عاشق کے چاک گریباں، بسمل کی تڑپ کے قصے، وطن کی محبت اور مذہبی عقیدت کے قصوں میں جو سوز و گداز اور شیرینی و رعنائی ہے وہ بھلا ٹریفک قوانین ، کوڑا پھینکنے کے قاعدوں اور پانی کے استعمال کے ضوابط جیسے موضوعات میں کہاں؟