رانی عندلیب
لوگ سال میں ایک ہی دن استاد کا عالمی دن منا کر بس اپنا جان چھڑا لیتے ہیں جبکہ میرے خیال میں یہ غلط ہے کیونکہ استاد کا شاگردوں پر اتنا حق ہے جتنا والدین کا اپنے اولاد پر ہوتا ہے۔ ہم ایک صرف ایک دن اپنے اساتذہ کرام کے نام کرکے بس سب کو یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے استاد محترم کا فرض ادا کرلیا۔ ہم اپنے استاد کی عزت و احترام اور اس سے پسندیدہ کا اظہار کسی بھی وقت کر سکتے ہیں کیونکہ استاد اور شاگرد کا رشتہ ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ اگر استاد ایک لمحے کے لئے شاگرد کو ڈانٹے بھی تو شاگرد کے دل میں اپنے استاد کی عزت و احترام کم نہیں ہوتی اور استاد کے دل میں اپنےشاگرد کے لئے نفرت نہیں ہوتی ۔
یہاں پر میں اپنے محترم اساتذہ کرام کے بارے میں بات کرتی ہوں ہو جو عزت اور احترام میرے دل میں میرے تمام محترم اساتذہ کرام کے لئے ہیں وہ تو کبھی بھی ختم نہیں ہوگا اور جو پسندیدگی ہے وہ بھی لازوال ہے میں نے اپنے تمام اساتذہ کرام سے بہت کچھ سیکھا ہے آج میں جس مقام پر ہوں وہ میرے اساتذہ کرام اور میرے والدین کی محنت کا ہی تو نتیجہ ہے۔
میرے اساتذہ کرام جو کےجی کلاس سے لے کر میرے ماسٹر کرنے تک جتنے بھی گزرے ہیں وہ تمام کسی نہ کسی لحاظ سے میرے پسندیدہ اساتذہ ہیں لیکن آج میں اپنے ان تمام اساتذہ کرام میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کرونگی۔میری کلاس کے جی سے لے کر تیسری جماعت تک جو کلاس ٹیچر تھی وہ میری پسندیدہ استانی تھی اس کا نام مس محفوظ تھا۔
کلاس میں میں اپنی مس محفوظ کی پسندیدہ شاگرد ہوا کرتی تھی اس کے علاوہ وہ کلاس کی تمام بچیوں کے مقابلے میں میرا بہت زیادہ خیال رکھتی تھی اور وہ کہتی تھی کہ یہ میری بیٹی ہے کیونکہ مس محفوظ کے بچے نہیں تھے تو وہ مجھے اپنے گھر بھی لے کر گئی تھی وہ اپنے گھر میں بھی میرا ایسا ہی خیال رکھتی تھی جیسے ماں اپنے بچوں کا رکھتی ہے وہ چاہتی تھی کہ میں اس کی بیٹی بن جاؤ پھر کلاس تھری میں ہی ہماری اس مس کا ٹرانسفر ہو گیا کیونکہ اس ٹائم میں خود بھی بہت چھوٹی تھی تو مجھے یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ کتنی اچھی استانی تھی میری زندگی میں دوبارہ اسی طرح کی کوئی استانی نہیں آئی پھر بعد میں میں نے اس کو بہت تلاش کیا اور اپنے اسکول میں جاکر تمام استانیوں سے اس کا پتا پوچھا لیکن کسی نے بھی اس کا پتہ مجھے نہیں دیا مجھے افسوس ہے کہ کاش میری اس استانی سے کہیں پے ملاقات ہو جائین۔
انسان کی تہذیبی ترقی کے لئے اس موجودہ ترقی یافتہ دور میں جو سب سے بڑا طریقہ اپنایا گیا ہے وہ تعلیم کا ہے انسانوں کی ترقی اور بچوں کی پرورش کے حوالے سے یہ فلسفہ انسان کو آنے والے وقت سے ،تہذیب سے ،معاشرے کے طور طریقوں، اقدار،علم اور بہت سارے علوم سے جو اس وقت دنیا میں رائج ہے اس کو پڑھانے کے لئے اساتذہ کو ذمہ داری دی گئی ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں والدین بچوں کی تربیت کرتے ہیں اور اساتذہ ان کو صرف تعلیم دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے پاکستان میں اساتذہ بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتے ہیں ان کو برے کاموں سے روکتے ہیں اگر والدین اولاد کے حقیقی ماں باپ ہوتے ہیں تو استاد روحانی والدین ہوتے ہیں گھر میں اگر بچوں کی صحیح پرورش والدین کرتے ہیں تو سکول میں اچھی تربیت دینا ایک استاد ہی کا کام ہے اس لئے والدین کے احترام کے ساتھ ساتھ استاد کا ادب و احترام کرنا سب پر لازم ہے کیونکہ دنیا میں دو بھی ایسے سچے اور مخلص رشتے ہیں جو آپ سے صحیح معنوں میں محبت رکھتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی خوشی میں خوش اور آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
ایک رشتہ والدین کا ہوتا ہے جو بغیر لالچ کے ہوتا ہے ہے دوسرا رشتہ استاد کا ہوتا ہے اگر ایک شاگرد کم نمبر لیتا ہے اور پڑھائی میں کمزور ہے تو استاد ہی وہ واحد ہستی ہوتی ہیں جو اپنے شاگرد پر خفا ہوتا ہے اور اپنے شاگرد کے لیے دعا کرتا ہے اور اگر وہ زیادہ نمبر لے لیتا ہے تب بھی والدین کے بعد ایک استاد ہی ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کے زیادہ نمبر لینے پر خوش ہوتا ہے یا اس کی کامیابی کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب چند ماہ پہلے میں یونیورسٹی گئی وہاں پر اپنی ٹیچرز سے ملاقات کے دوران یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ یہ میری استانی ہے ان کی محبت خلوص اور اپنائیت کی وجہ سے میں اکثر بھول جاتی ہوں کہ یہ میرے اساتذہ ہیں میں ان سے اتنا لاڈ پیار اٹھواتی ہوں۔چند ماہ پہلے میں یونیورسٹی گئی تو وہاں پر جو نیو اسٹوڈنٹ تھے انہوں نے ہماری میڈم سے پوچھا کہ یہ کون ہے مجھے یہ بات بہت اچھی لگی جب میڈم روبینہ نے انہیں بتایا کہ یہ میری بیٹی ہے ۔