ناہید جہانگیر
گھر اور معاشرے سے ایسا نفرت کیا جاتا ہے جیسے خواجہ سرا پیدا ہونا اللہ کی طرف سے نہیں ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہ کہنا ہے صوبیہ خان کا ۔
صوبیہ خان پشاور شہر گل برگ کی رہائشی ہیں جو مختلف ریڈیوز کے ساتھ ایک بروڈ کاسٹر کے طور پر کام کرتی ہیں اس کے علاوہ وہ ڈی آر سی کی ممبر بھی ہیں اور اپنی کمیونٹی کےحقوق کے لئے کام کرتی ہیں۔
صوبیہ خان کی اس بات پر کہ یہ تو اللہ تعالی کی طرف سے پیدا کردہ لوگ ہیں اس میں انکا کیا قصور ہے کہ حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ریسرچر ڈاکٹر غلام ماجد نے بتایا کہ
قران پاک میں 2 ہی جنس کا ذکر ہوا ہے مرد اور عورت ، جبکہ قران میں تیسرے جنس کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے ۔ جہاں تک تیسری جنس کا تعلق ہے تو میڈیکل کی رو سے یہ ایک فالٹ ہوسکتا ہے جیسے بعض بچے پیدائشی طور پر صحت مند ہوتے ہیں جبکہ بعض بچوں میں جسمانی نقص جیسے ہاتھ پاوں وغیرہ میں فرق ہوتا ہے اور معذور پیدا ہوتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں پچھلے کئ سالوں خواجہ سراوں کو قتل کرنے کا رحجان بڑھ گیا ہے عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ان کو اپنے ہی دوست یا بوائے فرینڈ ہی قتل کرتے ہیں جبکہ ان میں زیادہ تر خواجہ سرا غیرت کے نام پر بھی قتل کئے جاتے ہیں لیکن انکا ذکر نہیں کیا جاتا اس حوالے سے بلیو وینز( جو خواجہ سرا کے حقوق کے لئے کام کرتا ہے ) کے قمر نسیم کہتے ہیں کہ خواجہ سرا کے صوبائی تنظیم ٹرانس ایکشن کے مطابق 2015 سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا میں تقریبا 83 خواجہ سرا قتل کئے گئے ہیں جس میں 80 فیصد اپنے ہی بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں جن کی مختلف وجوہات ہیں زیادہ ترلین دین ، دوستی ترک کرنے ، کوئی دوسرے بوائے فرینڈ کی طرف جانا جو پہلے والے کو قابل قبول نہیں ہوتا اس لئے قتل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 7 سے 8 فیصد تک خواجہ سرا والدین یا رشتہ داروں کی طرف سے غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ پھر 8 سے 9 فیصد تک جنسی تعلق سے انکار کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ 8 فیصد تک حادثاتی طور پر کسی معمولی تکرار کی وجہ لڑائی رونما ہوتی ہیں اور فائرنگ کے نتیجے میں مارے جاتے ہیں۔
قمر نسیم نے خواجہ سراوں کو انصاف نا ملنے کے حوالے سے بتایا کہ 99 فیصد خواجہ سرا کے قتل کے کیس کی پیروی نہیں کی جاتی ۔ خاندان والے بہت ہی کم رقم پر بھی صلح کر دیتے ہیں لاکھ تک رقم لے کر قتل کیس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔اس طرح دوسرے خواجہ سرا دوست صرف گلے شکوہ اور مظاہرے کی حد تک ساتھ دیتے ہیں آج تک کسی بھی خواجہ سرا نے عدالت میں پیش ہوکر گواہی نہیں دی ہے اور نا ہی انکے پاس اتنی رقم ہوتی ہیں کہ وکیل کی لاکھوں فیس ادا کرسکیں اور سالوں سال تک عدالت کے چکر لگا سکے اس لیے خواجہ سرا کے قتل کے کیسز بہت جلد بند ہوجاتے ہیں۔
خواجہ سراوں کے قتل کے رحجان بڑھ جانے کے حوالے سے صوبیہ خان نے کہا کہ جو طبقہ گھر سے ددھتکار دیا جاتا ہے اس کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے خاندان والے ہر قسم کا رشتہ ناطہ چھوڑ دیں تو بہت آسانی کے ساتھ جنسی، جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ بے دردی سے مار دئیے جاتے ہیں۔ خواجہ سرا کچھ سالوں سے کافی مشکلات سے دوچار ہیں ہر وقت اس ڈر و خوف میں رہتے ہیں کہ کب اور کیسے تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا یا مار دیے جائیں گے۔ کوئی سیکورٹی نہیں ہے گھر والوں کی طرف سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو کوئی بھی خواجہ سرا کے ساتھ زیادتی کر سکتا ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا پولیس پکڑ کر لے جائے گی اور بی بی اے کے بعد رہائی ہوگی اور متاثرہ خواجہ سرا یا خاندان والوں کو ڈرا دھمکا کر صلح پر راضی کیا جائے گا اور بات ختم ہوجائے گی۔
صوبیہ خان نے بتایا کہ خواجہ سرا کمزور طبقہ ہونے کی وجہ سے بہت آسانی کے ساتھ چاہئے دوست ہو یا خاندان میں سے کوئی مارے جاتے ہیں ۔ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اگر ایک بھی مجرم کو سزا دی جاتی تو دوسرا کوئی جرت نہیں کرسکتا تھا کہ چھوٹی سی بات پر قتل کر دیے جاتے لیکن صوبیا خان پوچھتی ہیں کہ پیدائشی نقص میں انکا کوئی قصورنہیں ہے وہ بھی اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق ہیں حقارت اور نفرت نہ کریں اگر کل کو انکے گھر ایسا بچہ پیدا ہو تو وہ کیا کریں گے؟
اسلامک سکالر غلام ماجد نے پیدائشی نقص کے حوالے سے بتایا کہ اسلام اور میڈیکل کے مطابق ہر بچے میں کچھ علامات ہوتے ہیں جنکی بنیاد پر مرد یا عورت کہلاتا ہے۔ جس بچے میں عورت کے علامات غالب ہوتو عورت اگر مرد کے علامات ظاہر ہوتو مرد کہلاتا ہے۔ بہت کم ہی ایسے کیسز ہوتے ہیں جن کے مطابق آسانی سے فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔اسلامک سکالر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پشاور کی ایک مشہور گائناکالوجسٹ نے نام نا ظاہر کی شرط پر بتایا ہے کہ نامرد یا خواجہ سرا پر معاشرے میں بات کرنا بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے اور یہ بہت کنٹروورشل سبجیکٹ ہے۔
انہوں نے خواجہ سرا کے جنسی نوعیت پر کہا کہ جب بھی نر اور مادہ کے جنسی کروموس ملاپ کرتے ہیں تو اگر ایکس وائے مل جائے تو لڑکا ہوگا اور اگر ڈبل ایکس ہوتو لڑکی ہوتی ہیں مگر بعض اوقات جنسی تعین والے کروموسوم میں ایک ایکس کی ایکسٹرا ہونے کی وجہ سے ڈبل ایکس وائے جڑ جاتے ہیں جسکی وجہ سے جسمانی ساخت اور ہارمونز میں قدرتی طور پر تقریبا 33 فیصد لڑکیوں والے کام آجاتے ہیں۔ مطلب دو حصے مرد اور ایک حصہ عورت ،33 فیصد نفسیات میں فیمیل کے رحجان کی وجہ سے ان کے احساسات فیمیل جیسا ہوجاتا ہے۔ ان کو جنسی اعضا کا واضح نا ہونا یا مکس ہونا کہا جاسکتا ہے لیکن دوسری جانب بعض مردوں میں کوئی جنسی نقص نہیں ہوتا لیکن وہ خواتین جیسے احساسات رکھتے ہیں اور قدرت کی دی ہوئی جنس کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے پھر وہ کوئی نفسیاتی مسلہ یا عارضہ ہوتا ہے۔
علیشہ جو مردان سے تعلق رکھتی ہیں گائناکالوجسٹ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ان کی کمیونٹی میں زیادہ تر شوقی ٹرانس جینڈر ہوتے ہیں وہ خود بھی ایک مرد ہے لیکن احساسات خواتین کی طرح ہیں جسکی وجہ سے اانکو خواتین کی طرح خود کو سنورنا اچھا لگتا ہے۔
سکالر ماجد نے اس سوال کے جواب میں کہ واقعی خواجہ سرا کی دعا یا بد دعا قبول ہوتی ہے کہ حوالے کہا کہ جہاں تک خواجہ سرا کے ساتھ کچھ باتیں منسوب کی جاتی ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ کہ جو والدین کوئی گناہ کریں یا پیچھے سے جنسی عمل کریں تو ان کے ہاں خواجہ سرا پیدا ہوتا ہے یا اگر کوئی بھی تیسری جنس کسی کو دعا یا بد دعا دیں تو قبول ہوگی جس کی وجہ سے لوگ ڈرتے ہیں ۔ اکثر جو خواجہ سرا بھیک وغیرہ مانگتے ہیں تو ہر کوئی بد دعا کی ڈر سے بھیک دے دیتے ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں مظلوم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں،اسکا مطلب یہ ہے کہ جو بھی مظلوم ہوگا اسکی بد دعا لگتی ہے اس لئے اگر تیسری جنس بھی مظلوم ہے تو دعا اور بد دعا لگے گی ورنہ نہیں۔
پولیس زرائع کے مطابق اب تک جتنے بھی خواجہ سرا قتل ہوئے ہیں باقاعدہ ایف آئی آر درج کی جاتی ہے بہت سے مجرموں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے لیکن جب بات عدالت تک پہنچ جاتی ہے وہاں کوئی فالو اپ نا کرنے کی وجہ سے کیس بند ہوجاتا ہے یا خاندان والے نہیں چاہتے کہ بات آگے بڑھ جائے اس لئے مخالف پارٹی کے ساتھ صلح کر لیتے ہیں۔