صباحت خان
میری بات سنو ، گھر بیٹھ کر بچے سنبھالو، صاحبہ اولاد ہو اب کون سی صحافت کر رہی ہو،چلتا پھرتا ڈے کیئر سنٹر لگتی ہو ، خاوند خرچا نہیں دیتا ؟ ایسی کون سی مجبوری ہے جو شادی اور بچوں کے بعد بھی صحافت میں خود کو خوار کر رہی ہو،،، بچے اٹھا اٹھا کر کام کرتی ہو ، بچوں والی ماوں کو کوئی نوکری نہیں دیتا ایسے حال میں دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ایسے جملے ہر روز میرے کان سنتے ہیں ۔
حیران مت ہو یہ باتیں میرے منہ پر ہر روز کوئی نہ کوئی صحافی برادری کی جانب سے ادا کی جا تی ہیں ۔ بہت ذمہ داری کے ساتھ نہ صرف مرد بلکہ خاتون صحافی بھی ادا کرنے سے نہیں کراتی ۔ نوکیلے جملے اور منفی انداز کے سلوک برداشت کرنے کے بعد دل اور ذہن یہی سوچتا ہے کہ شاید میں غلط کر رہی ہو، مجھے صحافت چھوڑ دینی چاہیے،گھر اور بچوں کی پرورش کے علاوہ اب میرا کوئی کام اور مقام نہیں ہے ، یہ جملے سن کر چپ ہو جانا اور برداشت کرکے کام کرتے رہنے کسی بھی صورت میں ذہنی طور پر آسان نہیں ہے۔
دو ہزار اٹھارہ میں بیٹی کی پیدائش کے بعد آفس کا پہلا دن آج بھی یاد ہے جب میں بیٹی کو ساتھ لے کر گئی ۔ ایڈیڑ جاوید قریشی صاحب کی اجازت کے بعد میں نے آفس میں کام کرنا شروع کیا آج تک ایڈیٹر کی شگر گزار ہوں جن کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے آج تک بچوں کے ساتھ کام کر رہی ہوں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ آفس کے اندر دیگر کام کرنے والی سنیئرصحافیوں کی جانب سے عجیب غریب رویہ کا شکار ہوئی تھی۔
ایک ماہ بعد جب میں آفس آئی تو میرے کام کرنے والی میز پر ایک اور صحافی خاتون(نام بتانے کی ضرورت نہیں ہے ) کو بیٹھ دیا گیا تھا اور خاتون سمیت دیگر افراد نے سلام کا جواب دینے کے بعد سے شام تک ایسے ظاہر کرتے رہے کہ میرا وجود اور میری بیٹی کمرے میں موجود ہی نہیں ہے۔ بیٹھنے کی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے میں دوبار ایڈیر کو بتایا تو انہوں نے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو اگاہ کیا جس کے بعد آئی ٹی میں کام کرنے والے کولیگ اور ایڈیڑ کی مدد سے اسی کمرے میں میرے کام کرنے کے لیے میز اور کمپیوٹر لگایا گیا سلسلہ یہاں تک نہیں رکا تھا۔
آفس میں کام کرنے والے کولیگ کی جانب سے لاہور ہیڈ آفس میں میرے بارے میں غلط تاثر دیا جاتا تھا کبھی دیر اور جلدی آنے کی رپورٹ کی جاتی، کبھی کام میں غلطیوں کی لسٹ بیان کی جاتی، کبھی کردار کشی کی جاتی، افسوسناک صورت یہ تھی کہ آفس میں کوئی میری مدد کرنا بھی چاہتا تو اس کو بھی غلط باتوں سے ہراساں کیا جاتا ہے ۔
ایڈیٹر کی جانب سے کام میں کوئی کمی نہیں برداشت کی جاتی تھی مگر انہوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا تھا مگر معاملات ہیڈ آفس میں غلط رپورٹ کیا جاتے تھے جس کا نتیجہ ایک سال بعد میری امریکہ کی میڈیا فلوشپ ہوئی جس کے لیے میں نے چھٹیاں کی درخواست دی اور حیران کن انداز میں قبول بھی کر دی گئی۔
فلوشپ کرنے کے بعد پاکستان آئی تو مجھے آفس آنے کے پہلے ہی دن ایچ ار ڈیپارٹمنٹ میں بلا کر نوکری سے استعفیٰ دینے کو بولا گیا۔ میں نے خاموشی سے دستخط کیے اورایک ادارے کو چھوڑا کر مجھے آج تک ذہنی سکون کے ساتھ ساتھ فری لانسر صحافی کے طور پر قومی سطح کے ساتھ ساتھ بین الاقومی اداراوں میں بھی کام کرنے کے مواقع فراہم ہو رہے ہیں۔ آج میں شکرگزار ہوں منفی سوچ رکھنے والے لوگوں کے برے رویوں کا جن کا شکار ہوکر میں نے اپنے بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اپنے پروفیشن کو بھی جاری رکھا ہوا ہے ۔
میرے حالات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ صاحب سوچ رکھنے والے افراد کی جانب سے حوصلہ افزائی سے ہمت بھی ملتی ہے۔جس کی وجہ سے کام اج تک کر رہی ہوں مگر لوگوں کے غیر انسانی رویہ اور باتوں نے مجھے بہت تکلیف دی ہے اس سب کے باوجود میری صحافت کا سفر جاری ہے ۔ پہلے مجھے لگاتا تھا کہ میں واحد صحافی ماں ہوں جو یہ سب رویوں کا شکار ہو رہی ہوں۔
بچوں کے ساتھ شروع میں کام کرنا انتہائی مشکل لگاتا تھا ۔ذہنی، جسمانی، معاشرتی دباؤ نے مجھے بہت اکیلا کر دیا تھا مگر آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ میری طرح دیگر شعبوں میں بھی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ بے شمار مسائل کا شکار ہوتے ہوئے بھی اپنے شوق اور معاشی ذمہ داریوں میں کردار ادا کر رہی ہیں۔
اس طرح میڈیا میں بھی پچھلے کچھ سالوں میں ایسے واقعات مناظر عام پر آئے جس سے انداز ہوا کہ خواتین اس مسئلہ پر اس لیے بات نہیں کرتی تھی کہ وہ ایسے رویوں کو ہراسگی کے بجائے اپنا قصور سمجھتی تھی مگر اب کافی خواتین نے آواز اٹھائی تو اندازہ ہورہا ہے کہ ملک کے چاروں کونوں میں صحافی خواتین مائیں ایسے حالات کا سامنا کر رہی ہیں ۔ میں نے اپنی ساتھی صحافی خواتین سے رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا ۔۔۔۔۔ بہت تکلیف دہ رویوں کو برداشت کرتے ہوئے ہم صحافی خواتین کا کر رہی ہیں اور حوصلہ افزائی کے لیے کوئی پلیٹ فارم بھی موجود نہیں ہے ۔
نام ظاہر نہ کرتے ہوئے صحافی خاتون کا کہنا ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ اپنا بچہ روتا ہے تو دل میں تکلیف ہوتی ہے دوسرا کا روتا ہے تو سر میں درد ہوتا ہے ۔ صحافتی اداروں کے حالات بھی ایسے ہی ہیں کہ خواتین کو بچوں کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے زبردستی نوکری سے نکلا جاتا ہے اسی رویہ کا شکار میں بھی ہوئی ہوں ۔ صحافی خاتون کا مزید کہنا ہے کہ جب میں بچوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو لوگوں کے مثبت اور منفی رویوں سے معلوم ہو گیا کہ اب صحافت کا شعبہ مزید مشکل ترہو جائے گا۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ورکنگ مدرز کے لیے کوئی نوکریاں موجود نہیں ہیں دوسرا اگر بچوں کے ساتھ نوکری مل بھی جائے تو آفس کا ماحول بچوں کے لیے مناسب نہیں ہوتا ، بچوں کے سونے جاگنے، رونے، کھیلنے سے آفس میں کام کرنے والے لوگ مسائل پیدا ہونے کی شکایت کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ڈے کیئر سنٹر کا ہمارے دفتروں میں کوئی سوچتا بھی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں کام کرنے والی خواتین بھی خود ان مسئلہ کا شکار ہو رہی ہے ۔
بلوچستان اور کے پی میں ایم این اے خواتین کے بچوں کے لیے حال ہی میں سنٹر قائم ہوئے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں میں ڈے کیئر سنٹر میں والدین سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کہ بچے ملک کے مستقبل ہیں مگر پاکستان میں مائیں کدھر جائے ڈے کیئر سنٹر ایک کاروبار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اسی صورت میں مائیں بچوں کے ساتھ کام کرنے کو ترجیخ دیتی ہیں ۔
سرکاری ٹی وی میں اینکر صحافی خاتون مدیحہ عابد علی کا کہنا ہے خواتین کے مسائل کسی صورت ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، کیوں کہ مسئلہ کا حل تب ہی نکلتا ہے جب مسائل کو سمجھا جائے ۔ نجی ادار وں کی نسبت سرکاری ٹی وی میں ڈے کیئر سنٹر موجود ہے صحافی خواتین بچوں کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورکنگ ویمن کے مسائل، ملکی اور معاشرتی ترقی کے کردار پر بھر پور بحث ہو رہی ہے مگر ہمارے ملک میں تو ووکنگ وویمن کی موجودگی کو ہی سوالیہ نشان بنا جا رہا ہے ۔ خاص کر صحافت کے شعبے کو مردوں تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے جبکہ اب خواتین کی تعداد بھی صحافت کے مختلف شعبوں کو اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ بے شمار مسائل کے باوجود خواتین ریڈیو ، ٹی وی چینل ، اخبارات کے ساتھ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر ترجیحات بنیادوں پر کام کر رہی ہیں ۔
بد قستمی سے میں ایک ایسے روایاتی معاشرے میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سے کام کر رہی ہوں جہاں عورت ، خاتون ، لڑکی کو ایک کی روایاتی سوچ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ عورت ماں بنانے کے بعد کسی کام کی نہیں رہتی، زندگی کا ہر رنگ ختم ہو جاتا ہے ۔ مجھے یہ معلوم ہے ماں باپ کی میرے تعلیم اور مستقبل پر بہت محنت اور قربانیاں ہیں اس سب کو یاد رکھتے ہوئے اپنے شوق کو پیشہ میں تبدیل کرنا ، کام کام کام کرتے جانا اور مثبت سوچ سے چلتے رہنا ہی منفی باتیں کرنے والوں کے لیے جواب ہے۔صحافی ماں ہونا میرے لیے باعث فخر ہے